اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

کتاب کا مطالعہ

کتاب کا مطالعہ

کتاب کا مطالعہ

کتا ب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کا ایک بہترین طریقہ ہے اچھى کتاب قارى کى روح پر بہت گہر اثر ڈالتى ہے اس کى روح اور نفس کو کمال عطا کرتى ہے اور اس کى انسانى حیثیت کربلند کردیتى ہے اس کے علم میں اضافہ کرتى ہے اس کى معلومات بڑھاتى ہے اخلاقى اور اجتماعى خرابیاں دور کرتى ہے خصوصاً دور حاضر کى مشینى زندگى میں کہ جب انسان کے پاس فرصت کم ہوگئی ہے اور علمى و دینى محافل میں شرکت مشکل ہوگئی ہے کتاب کا مطالعہ تعلیم و تریت کے لیے اور بھى اہمیت اختیار کرگیا ہے ممکن ہے کتاب کے مطالعے سے انسانى روح پر جو اثرات مترتب ہوں وہ دیگر حوالوں سے مترتب ہونے والے اثرات سے عمیق ترا ور زیادہ گہرے ہوں کبھى انسان کا مطالعہ اس کى شخصیت کو تبدیل کرکے دکھ دیتا ہے علاوہ ازیں مطالعہ کتاب بہترین مشغولیت بھى ہے اور صحیح تفریح بھى جو لوگ اپنى فراغت کے اوقات کتاب کے مطالعہ میں گزارتے ہیں وہ علمى اور اخلاقى استفادہ کے علاوہ اعصابى کمزورى اور روحانى پریشانى سے بھى محفوظ رہتے ہیں اور ان کى زندگى زیادہ آرام وہ ہوتى ہے کتاب ہر نظارے سے زیادہ خوبصورت اور ہر باغ اور ہر چمن سےزیادہ فرحت بخشہے لیکن جو اہل ہو اس کے لیے کتاب دلوں کى پاکیزگى اور  نورانیت عطا کرتى ہے اور غم بھلادیتى ہے اگر چہ وقتى طور پر ہى سہی حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

جو شخص اپنے آپ کو کتابوں کے ساتھ مصروف رکھتا ہے اس کا آرام خاطر (ضائع نہیں ہوتا )

امیرالمومنین علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

تازہ بہ تازہ علمى مطالب حاصل کرکے اپنے دلوں کى کسالت اور خستگى کو دور کروکیوں کہ دل بھى بدن کى( طرح تھک جاتے ہیں )

ہر ملت کى ترقى اور تمدّن کا معیار ان کى کتابوں کى کیفیت ، تعداد اشاعت اور مطالعہ کرنے والوں کى تعداد کو قرار دیا جا سکتا ہے پڑھا لکھا ہونا ترقى کى علامت نہیں بلکہ مطالعہ اور تحقیق ملتوں کى ترقى کى علامت ہے ہمارے پاس پڑھے لکھے بہت ہیں لیکن یہ بات باعث افسوس ہے کہ محقق اور کتاب دوست زیادہ نہیں زیادہ تر لڑکے لڑکیاں جب فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں تو کتاب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں وہ کاروبار اور زندگى کے دیگر امور میں مشغول ہوجاتے ہیں لہذا ن کى معلومات کا سلسلہ وہیں پر رک جاتا ہے گویا حصول تعلیم کا مقد بسحصول معاشر ہى تھا جب کہ حصول تعلیم کو انسان کے کمال اور علمى پیشرفت کے لیے مقدم ہونا چاہیے انسان ابتدائی تعلیم کے حصول سے مطالعہ اورتحقیق کى صلاحیّت پیدا کرتا ہے اس کے بعد اس کو چاہیے کہ وہ مطالعہ کرے تحقیق کرے اور کتاب پڑھے تا کہ اپنے آپ کى تکمیل کرسکے اور پھر ایک مرحلے پر انسانى علوم کى ترقى میں مددکرسکے اور یہ کام توانائی اور وسائل کے مطابق آخر عمر تک جارى رکھے دین مقدس اسلام نے بھى اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ بچپن سے لے کر موت کى دہلیز تک حصول علم کو ترک نہ کریں رسول اسلام صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ( حصول علم ہر مسلمان کا فریضہ ہے اور الله طالب علموں کو پسند کرتا ہے )

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

میرے اصحاب کو اگر تازیانے سے بھى حصول علم کے لیے آمادہ کیا جائے تومجھے یہ پسند ہے

رسول اکرم صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: دو افراد کے علاوہ زندگى میں کسى کے لیے بھلائی نہیں پہلا وہ عالم کہ جسکى ابتاع کى جانے اور دوسرا کہ جو حصول علم میں مشغلو ہو

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

لوگ تین طرح کے ہیں:

1عالم ،

2طالب علم اور

3باقى کو ڑاکر کٹ کا ڈھیر

امام صادق علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: بیٹا اپنے شب و روز میں کچھ وقت مطالعہ اور حصول علم کے لیے

مختص کرو کیونکہ اگر تم نے مطالعہ ترک کردیا تو تمہارا علم ضائع ہوجائے گا

امام جعفر صادق علیہ السلام ہى نے ارشاد فرمایا:

حصول علم ہر حال میں واجب ہے

پیغمبر اکرم صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

طلب العم فریضة على کل مسلم و مسلمة

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر لوگوں کو علم کا فائدے معلوم ہوتے تو اس کے حصول کے لیے کوشش کرتے اگر چہ اس کام میں ان کى جان خطرے میں پڑجاتى یا انہیں حصول علم کیلئے سمندر پار کا سفر کرنا پڑتا

نبى کریم صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

اگر میرا کوئی ایک دن ایسا گزرجائے کہ جسدن میرے علم میں کچھ بھى اضافہ نہ ہو تو ہ دن نا مبارک ہے ماں باپ کى ابتدائی ذمہ دارى یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے لیے اسکول بھیجیں اسلام نے اس سلسلے میں بھى بڑى تاکید کى ہے

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 بچہ سات سال کھیلتا ہے سات سال پڑھتا ہے اور سات سال حلال و حرام کے متعلق جانتا ہے

پیغمبر اسلام صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

بیٹے کے باپ پر تین حق ہیں

2اسے پڑھنا لکھنا سکھائے اور

 3جب بڑا ہوجائے تو اس کى شادى کرے

نبى اکرم صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جب بچے کو مدرسے لے جاتے ہیں اور استاد اسے بسم الله پڑھتا ہے تو خدا اس کے والدین کو جنہم کى آگ سے بچالیتا ہے

پیغمبر اکرم صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

افسوس ہے دور آخر کے بچوں پر کہ جوان کے آباء کے ہاتھو ں ان چہ گزرے گى اگر چہ وہ مسلمان ہوں گے  لیکن اپنى اولاد کو دینى فرائض سے آگاہ نہیں کریں گے


بشکریہ :  مکارم شیرازی ڈاٹ او آر جی