اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات

انسانی اخلاق سے مراد مکارم اخلاق ہے جن کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق – مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے (بحارالانوار ج 71 ص 420) 

ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ علیکم بمکارم الاخلاق فان اللہ بعثنی بھا وان من مکارم الاخلاق ان یعفوا عمن ظلمہ و یعطی من حرمہ و یصل من قطعہ و ان یعودمن لایعودہ۔ یہ مکارم اخلاق میں سے ہے کہ انسان اس پر ظلم کرنے والے کو معاف کر دے ، اس کے ساتھ تعلقات و رشتہ برقرار کرے جس نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے ،اور اس کی طرف لوٹ کر جائے جس نے اسے چھوڑ دیا ہے (ہندی ج 3 طبرسی ج 10ص333) 

مکارم اخلاق ،انسانی اخلاق اور حسن خلق میں کیا فرق ہے ؟آئیے لغت کا سہارا لیتے ہیں ، 

مکارم مکرمۃ کی جمع ہے اور مکرمہ کی اصل کرم ہے۔ کرم عام طورسے اس کام کو کہا جاتا ہے جسمیں عفو و درگذر اور عظمت و بزرگواری ہو یا بالفاظ دیگر وہ کام غیر معمولی ہوتا ہے چنانچہ اولیا ء اللہ کے غیر معمولی کاموں کو کرامت کہا جاتا ہے۔ 

راغب مفردات میں کہتے ہیں کہ کرم ان امور کو کہا جاتا ہے جو غیر معمولی اور با عظمت ہوں اور جو چیز شرافت و بزرگواری کی حامل ہو اسے کرم سے متصف کیا جاتا ہے۔ بنا بریں مکارم اخلاق محاسن اخلاق سے برتر و بالا ہیں۔ البتہ روایات میں ان دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ حسن خلق سے مراد وہ اچھے اخلاق ہیں جو حد اعتدال میں تربیت یافتہ لوگوں میں ہوتے ہیں۔ اسی امر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا الخلق الحسن لاینزع الا من ولد حیضۃ او ولد زنۃ۔ حسن خلق پاک و پاکیزہ انسان کا لازمہ ہے 

ہے جو فطرت و خلقت کے لحاظ سے پاک پیدا ہوا ہے اور حیض یا زناسے پیدا ہونے والا ہی حسن خلق کا حامل نہیں ہوتا شاید اسی بنا پر روایات میں حسن خلق کے مراتب ذکر کئے گئے ہیں اور جس کا اخلاق جتنا اچھا ہو گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا ، حدیث شریف میں ہے "اکمل المومنین ایمانا"احسنہم خلقا"اس مومن کا ایمان کامل تر ہے جس کا اخلاق بہتر ہے۔ (مجلس ص 389 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے کہ ان من احبکم الی احسنکم خلقا "تم میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا اخلاق زیادہ اچھا ہو۔ 

مکام اخلاق حد اعلائے حسن خلق کو کہتے ہیں اور اسے ہم کرامت نفس ، اخلاق کریمانہ بھی کہ سکتے ہیں۔ 

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہے "احسن الاخلاق ما حملک علی المکارم"سب سے اچھے اخلاق وہ ہیں جو تمہیں مکارم اخلاق کی منزل تک لے جائیں۔ (غررالحکم ج 2 ص 462) مثال کے طور پر اچھے اخلاق میں ایک یہ ہے کہ انسان دوسروں کے حق میں نیکی اور احسان کرے اس کے بھی مرتبے ہیں۔ 

بعض اوقات کوئی کسی کے حق میں نیکی کرتا ہے جس کے حق میں نیکی کی گئی ہے اس کا انسانی ، اسلامی اور عرفی فریضہ ہے کہ وہ احسان کے بدلے احسان کرے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں کہتا ہے۔ ھل جزاء الاحسان الاحسان (الرحمن 60)کیا احسان کی جزاء احسان کے علاوہ کچھ اور ہو گی؟ 

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ، ہشام ابن حکم سے اپنے وصیت نامے میں فرماتے ہیں یا ہشام قول اللہ عزوجل ھل جزا ء الاحسان الا الاحسان جرت فی المومن والکافر و البر والفاجر۔ من صنع ا لیہ معرف فعلیہ ان یکافی بہ ولیست المکافاۃ ان تصنع کما صنع حتی تری فضلک فان صنعت کما صنع فلہ الفضل بالابتداء۔ 

اے ہشام خدا کا یہ فرمان کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ اس میں مومن و کافر ، نیک اور بدسب مساوی ہیں۔ (یعنی یہ تمام انسانوں کے لئے ضروری ہے ) جس کے حق میں نیکی کی جاتی ہے اسے اس کا بدلہ دینا چاہئے اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہی نیک کام انجام دیدیا جائے کیونکہ اس میں کوئی فضل و برتری نہیں ہے اور اگر تم نے اسی کی طرح عمل کیا تو اس کو تم پر نیک کام کا آغاز کرنے کی وجہ سے برتری حاصل ہو گی۔ 

یہ وصیت نامہ علی بن شعبہ نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔ 

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نیکی کے بدلے میں نیکی نہیں کرتا بلکہ اپنے اخلاقی اور انسانی فریضے کے مطابق اپنے بنی نوع کے کام آتا ہے اسکی مشکل دور کر دیتا ہے ، اسکی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ دراصل ہر انسان اپنے بنی نوع کے لئے ہمدردی اور محبت کے جذبات رکھتا ہے۔ 

بقول سعدی 

بنی آدم اعضای یکدیگرند۔ 

کہ درآفرینش زیک گوہرند۔ 

جو عضوی بہ درد آورد روزگار۔ 

دگر عضوھارا نماند قرار۔ 

اس سے بڑھ کر مکرمت اخلاقی اور کرامت نفس کا مرحلہ ہے۔ جسے ہم مکارم اخلاق کہتے ہیں۔ اسکی مثال اذیت و آزار کے بدلے میں نیکی کرنا ہے جبکہ وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن برائی کے بجائے نیکی اور احسان کرتا ہے یعنی نہ صرف انتقام اور بدلہ نہیں لیتا بلکہ بدی کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور نیکی سے جواب دیتا ہے قرآن کریم کے مطابق۔ ادفع بالتی ہی احسن السئیۃ ( مومنون 96) اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعے رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں۔ 

بقول شاعر۔ 

بدی رابدی سھل باشد جزا 

اگر مردی احسن الی من اساء 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ العفو تاج المکارم۔ عفوو درگزشت مکارم اخلاق میں سب سے اعلی ہے۔ (عزرالحکم ج 1 ص 140) 

یہ آیات کریمہ ہماری بیان کر دہ باتوں کا ثبوت ہیں اور ان میں اخلاق کریمانہ کی پاداش بھی بیان کی گئی ہے "والذین اذا اصابھم البغی ہم ینتصرون۔ وجزاء السیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظالمین۔ ولمن انتصر بعد طلبہ فاولئک ماعلیھم من بیل۔ ولمن صبر و غفر ان ذالک من عزم الامور۔(شوری 39-43) 

"اور جب ان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کا بدلہ لے لیتے ہیں اور ہر برائی کا بدلہ اس کے جیسا ہوتا ہے پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کر دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ یقیناً ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ اور جو شخص ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلاتے ہیں انہیں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اور یقیناً جو صبر کرے اور معاف کر دے تو اس کا یہ عمل بڑے حوصلے کا کام ہے۔ 

اس آیت سے چند امور واضح ہوتے ہیں۔ 

1۔ ستم رسیدہ کو انتقام لینے کا حق ہے کیونکہ بدی کا بدلہ عام طور سے بدی ہے۔ 

2۔ لیکن اگر معاف کر دے اور اسکے بعد اصلاح کرے (یعنی برائی اور ظلم و ستم کے آثار کو ظاہرا اور باطنا مٹا دے ) تواس کا اجر خدا پر ہو گا(اسکی کوئی حد نہیں ہو گی) 

3۔ اگرستم رسیدہ انتقام لینا چاہے اور بدلہ لے توکسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر صبر کرے اور عفو و درگزر سے کام لے تو اس نے نہایت حوصلے کا کام کیا ہے۔ 

آیت اللہ شہید مطہری نے اپنی کتاب فلسفہ اخلاق میں "فعل فطری اور فعل اخلاقی"کی بحث میں مکارم اخلاق کے سلسلے میں دلچسپ تحقیقات پیش کی ہیں اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم اخلاق کے بعض جملے نقل کئے ہیں۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں اللھم صلی علی محمد وآل محمد وسددنی لان اعارض من غشنی بالنصح و اجزی من ھجرنی بالبر و اثیب من حرمنی بالبذل واکافی من قطعنی بالصلۃ و اخالف من اغتابنی الی حسن الذکر و ان اشکرالحسنۃ او اغضی عن السیئۃ۔ اے پروردگار محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما ا ور مجھے توفیق دے کہ جو مجھ سے غش و فریب کرے میں اس کی خیر خواہی کروں ،جو مجھے چھوڑ دے اس سے حسن سلوک سے پیش آؤں جو مجھے محروم کرے اسے صلہ رحمی کے ساتھ بدلہ دوں اور پس پشت میری برائی کرے میں اس کے برخلاف اس کا ذکر خیر کروں اور حسن سلوک پر شکریہ ادا کروں اور بدی سے چشم پوشی کروں۔ 

اس کے بعد شہید مطہری عارف نامدار خواجہ عبداللہ انصاری کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا کام ہے ، نیکی کا جواب نیکی سے دینا گدھوں کا کام ہے اور بدی کا جواب نیکی سے دینا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔ 

واضح رہے اس سلسلے میں بے شمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں یہاں پر ہم ایک حدیث نقل کر رہے ہیں جو مرحوم کلینی نے ابوحمزہ ثمالی کے واسطے سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ثلاث من مکارم الدینا والآخرۃ، تعفوا عمن ظلمک و تصل من قطعک و تحلم اذا جھل علیک۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین چیزیں دنیا و آخرت میں اچھی صفات میں شمار ہوتی ہیں (انسان کو ان سے دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچتا ہے )وہ یہ ہیں کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو،اور جو تمہیں محروم کرے اس سے صلہ رحم کرو اور جو تمہارے ساتھ نادانی کرے اس کے ساتھ صبر سے کام لو۔ 

کلینی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک خطبے میں فرمایا الا اخبرکم بخیر خلائق الدنیا و الآخرہ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک و الاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں دنیا و آخرت کے بہترین اخلاق سے آگاہ نہ کروں ؟ اسے معاف کر دینا جوتم پر ظلم کرے۔ اس سے ملنا جو تمہیں چھوڑ دے اس پر احسان کرنا جس نے تمہارے ساتھ برائی کی ہو۔ اسے نوازنا جس نے تمہیں محروم کر دیا ہو۔ ان ہی الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک اور روایت نقل ہوئی۔ 

یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکارم اخلاق بیان کرنا کسی انسان کا کام نہیں کیونکہ آپ کے بارے میں خداوند قدوس فرماتا ہے کہ انک لعلی خلق عظیم۔ (اصول کافی باب حسن الخلق) قلم آپ کے فضائل و کرامات بیان کرنے سے عاجز ہے۔ جو امور ذیل میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ آپ کے محاسن و مکارم اخلاق کے سمندر کا ایک قطرہ بھی نہیں ہیں۔ 

مرحوم محدث قمی کا کہنا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں سمونے یا آفتاب کو روزن دیوار سے گھر میں اتارنے کے مترادف ہے لیکن بقول شاعر 

آب دریا را اگر نتواں کشید 

ہم بقدرتشنگی باید چشید

حضرت خدیجہ ع اور حفاظت رسول ص

حضرت خدیجہ ع اور حفاظت رسول ص
حضرت خدیجہ ع رسول ص کی نیک سیرت و تمام عالمین کی خواتین کیلئے نمونہ خاتون ہیں.جس وقت سورہ حجرات ۹۴۔۹۵ نازل ہوئیں رسول ص نے کوہ صفا و مروہ پر جاکر اعلان کیا.
کوہ مروہ پر جب اعلان فرمایا تو ابوجہل نے گستاخی کی پتھر اٹھا کر رسول ص کی طرف پھنکا تمام مشرکین جو اس وقت وہاں موجود تھے انھون نے بھی ابوجہل کے ساتھ سنگ باری کی تو رسول ص پہاڑوں کی طرف چلے گئے کسی نے اس بات کی اطلاع امام علی ع کو دی اور بتایا کہ رسول ص شہید ہو گئے ہیں امام علی ع بے چین ہوکر رسول ص کے گھر چلے گئے اور یہ اطلاع دی کہا آپ پانی و غذا مجھے دے دیں یا پھر پانی و غذا ساتھ لے کر میرے ساتھ چلیں حضرت خدیجہ ع نے جوں ہی یہ سنا تو برداشت نا کرسکیں پانی و غذا لے کر امام علی ع کے ساتھ نکلیں جن کی عمر ابھی صرف ۱۳ سال تھی آپ رسول ص کو تلاش کررہے تھے مگر رسول ص نہ ملے تو امام علی ع نے فرمایا آپ کوہ میں تلاش کریں میں پہاڑ پر تلاش کرتا ہوں دونوں عشاق رسول ص پریشان روتے ہوئے تلاش کر رہے تھے ادھر رسول ص کے پاس جبرائیل تشریف لائے رسول ص کی دل جوئی کرنے لگے فرشتے رسول ص کے پاس آئے کہ اجازت لے کر قوم کو تباہ و برباد کر دیں مگر رسول ص نے فرمایا :میں رحمۃ العالمیں ہوں میں یہ اجازت نہیں دوں گا میری قوم نادان ہے جبرائیل علیہ السلام نے رسول ص سے فرمایا یا رسول ص اللہ خدیجہ گریہ کر رہی ہیں جس کی وجہ سے آسمان کے فرشتے بھی گریہ کر رہے ہیں ان کو اپنی طرف بلا لیں اور ان کی خدمت میں میرا سلام پیش کردیں اور ان کو کہ دیں کہ اللہ بھی آپ پر سلام بھیجتا ہے۔ ان کو یہ خوشخبری بھی سنا دیں کہ اللہ نے ان کیلئے جنت میں ایک بہت خوبصورت گھر مخصوص کیا ہے جو شیشے اور سونے سے تیار کیا گیا ہے اس گھر میں کسی قسم کا رنج و پریشانی نہ ہوگی۔ اس وقت جناب رسول ص نے جناب خدیجہ کو آواز دی اس آواز پر خدیجہ جہاں بھی تھیں فورا پیغمبر ص کے نزدیک پہنچ گئیں کیا دیکھتی ہیں کہ رسول ص کی پیشانی مبارک سے دو آنکھوں کے درمیان سے خون کے قطرات(اس زخم سے جوابوجہل کے پتھر سے ہوا تھا) زمین پر گر رہے ہیں آپ اس خون کو صاف کر رہے ہیں جناب خدیجہ ع نے جب اپنے شوہر نامدار ، سرور دو جہاں ،مجبوب خدا کو اس حالت میں دیکھا تو درد بھری آہ کھینچی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اس خون کے قطرات کو زمیں پر گرنے دیں پیغبر خدا نے فرمایا میں پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں کہ وہ اس وجہ سے زمیں پر عذاب نازل نہ کردے۔ جب رات آ پہنچی تو پیغمبر ص نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت علی و جناب خدیجہ کے ہمراہ واپس اپنے گھر لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح کچھ ہی دیر کے بعد اپنے گھر پہنچ گئے ۔جناب خدیجہ نے گھر کے اس کمرے میں رسول ص کو بٹھایا جس کی دیواریں پتھروں سے بنی ہوئی تھیں اس کمرے کی چھت کو بھی مضبوط لکڑی یا چوڑے پتھروں سے آراستہ کیا گیا تھا آپ پر چادر ڈال دی اور خود آپ کے آگے سینہ سپر ہوگئیں. 
مشرکیں مکہ آئے اور انھوں نے ہرطرف سے پتھر پھینکنے شروع کردیئے مضبوط دیواروں اور چھت کی وجہ سے پتھر اندر داخل نہ ہو سکتے تھے .
لیکن سامنے سے جہاں جناب خدیجہ ع کھڑی تھیں پتھر اندر داخل ہورہے تھے جن کو جناب خدیجہ ع خود اپنے ہاتھوں سے روک رہی تھیں کچھ پتھر جناب خدیجہ ع کو لگ رہے تھے اس طرح جناب خدیجہ ع پیغمبر کو دشمن کی سنگ باری سے بچا رہی تھیں فریاد بھی کر رہی تھیں کہ اے اہل قریش کیا تم ایک آزاد عورت کو اس کے گھر میں سنگ باران کرنا چاہتے ہو؟ جب مشرکین نے اس فریاد کو سنا تو وہ پتھر پھینکنے سے ٹل گئے اور وہاں سے چلے گئے اگلے روز صبح صبح رسول ص گھر سے نکلے اور کعبہ چلے گئے ۔ کعبہ میں جاکر نماز ادا کی اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کر کرنے لگے۔

کتاب:ام المومنین ملیکۃ العرب خدیجۃ الکبریِ , مولف: علامہ محمد محمدی اشتہاردی , صفحہ نمبر:۱۵۶ سے ۱۶۱