اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

لبنان اٹارنی جنرل: امام موسی صدر کا معاملہ انٹرپول کے ذریعے اٹھا

لبنان اٹارنی جنرل: امام موسی صدر کا معاملہ انٹرپول کے ذریعے اٹھائیں گے

جعفریہ نیوز نیٹورک/اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کے اٹارنی جنرل، سعید المیرزا نے روزنامہ “الاخبار” سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امام موسی صدر کا کیس 2007 سے انٹرپول کے پاس ارسال کیا گیا ہے اور آج بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہم اپنی درخواست پر ایک بار تأکید کرتے ہیں اور انٹرپول کے ذریعے ان کے بارے مین تازہ ترین معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عین ممکن ہے ہم اطلاعات جمع کرنے کے لئے ایک کمیٹی لیبیا روانہ کریں تا کہ ان جگھوں کا معائنہ کرے جہاں لیبیا کے حکومت کا دعوی ہے کہ امام موسی صدر کی تدفین ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ لیبیا میں وسیع صحراؤں کا ملک ہے اور ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ہمیں مختلف علاقوں تک پہنچنے میں مدد دیں لیکن اس وقت لیبیا کی صورت حال نہایت پیچیدہ ہے اور دو ملکوں کے درمیان سفارتی ہماہنگی بہت مشکل ہے۔
دوسری طرف سے لبنانی کی عبوری کابینہ کے وزیر قانون “ابراہیم نجار” نے کہا: امام موسی صدر کے معاملے میں لبنان کے سرکاری عہدیداروں کی جانب سے کوتاہی لبنان کے حق میں نہایت شرمناک مسئلہ ہے۔
انھوں نے کہا: ہم کس بات سے خوفزدہ ہیں؟ کیا ہم قذافی سے ڈرتے ہیں جو اپنے عوام کا خون بہاتا ہے اور انہیں چوہا کہتا ہے؟
انھوں نے کہا: میرے لئے باعث حیرت بات یہ ہے کہ اس معاملے کے تیس سال گذر گئے ہیں اور لبنان کے اٹارنی جنرل آفس میں امام موسی صدر کی سطح کی اعلی شخصیت کے اغوا کے کیس کے تمام ملزمان کی گرفتاری کے احکامات بھی موجود ہیں لیکن اس کیس کی پیروی نہیں ہوئی ہے اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ لبنان میں کسی میں بھی اتنی جرأت نہیں ہے کہ اپنی عدلیہ کے ان احکامات کو لیبیا میں کیس کے ملزمان کے لئے روانہ کرسکے؟۔
لبنان کے وزیر قانون و انصاف نے کہا: کیس کے ملزمان کی گرفتاری کے احکامات میرے دستخطوں سے جاری ہوئے ہیں لیکن ان احکامات سے کوئی اثر نہیں پڑا اور یہ مسئلہ ابھی تک سردخانے میں پڑا ہے۔
امام موسی صدر کے ہمراہ اغوا ہونے والی لبنانی شخصیت کے فرزند “حسن یعقوب” نے بھی لیبیائی نظام کے سابق وزیر “الہونی” کے حالیہ انٹرویو کی طرف اشارہ کیا ـ جس نے امام موسی صدر اور ان کے ساتھیوں کو شہید کئے جانے کا اعلان کیا ہے ـ اور کہا: الہونی نے اپنے اعلان کے لئے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور اس کی باتوں کا یقین نہیں کیا جاسکتا اور پھر یہ شخص 1975 سے بھی پہلے، قذافی کے ہاتھوں لیبیا سے نکال دیا گیا تھا اور 15 سال بعد ـ 1990 میں ـ وطن واپس آیا ہے۔
انھوں نے کہا: اس میں شک نہیں ہے کہ الہونی قذافی کے تمام جرائم میں شریک تھا اور اب وہ اس طرح کے اعلانات کرکے اپنے آپ کو قذافی کے جرائم سے بری قرار دینا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ امام موسی صدر 1978 کو آمر قذافی کی دعوت پر لیبیا کے دورے پر گئے تھے اور ان کے ہمراہ ایک عالم دین شیخ محمد یعقوب اور ایک صحافی استاد عباس بدرالدین بھی طرابلس گئے ہوئے تھے اور طرابلس کے ہوٹل “فندق الشاطئ میں مقیم رہے۔ اور اس کے بعد لاپتہ ہوئے جبکہ آمر قذافی 1978 سے ہے دعوی کررہے ہیں کہ امام موسی اٹلی چلے گئے تھے جبکہ اٹلی حکومت نے اس دعوے کی بارہا تردید کی ہے اور لیبیا اور لبنان کے مستقل ذرائع کا خیال ہے کہ وہ لیبیا سے خارج نہیں ہوئے۔
ایک لیبیائی ذریعے نے تھوڑی دیر قبل العالم ٹیلی ویژن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امام موسی صدر آج چھوٹے ہوائی جہاز کے ذریعے طرابلس سے نامعلوم منزل کی جانب لے جائے گئے ہیں۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد