بھٹکتے بھٹکتے
بھٹکتے بھٹکتے
سارا دن گلیوں میں
آوارگی کرتے کرتے
جب شام کا سورج
ڈھلنے لگا اور
ٹھٹھرتی شام میں
سیاہی مائل اندھیرا چھا گیا
جب ہوا کی سرد لہر
سارے جسم کی رگوں کو
منجمد کرنے لگی
تو آوارہ روح کی طرح
در در بھٹکتی
آخر تیری یاد
میرے دل کے دروازے پر آن پہنچی
رات کے سناٹے میں
میں اور تیری یاد
سرگوشیاں کرتے کرتے
ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے
تیرے انتظار کے دیئے جلائے
یوں تمام رات جلتے رہے
پگھلتے رہے
تیرے انتظار کی
گرہیں گنتے رہے ۔۔۔