اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

اس رات کیا ہوا؟

اس رات کیا ہوا؟
ننھے ننھے ہاتھ اس کے پائوں سے لپٹ گئے
پھپھو!
ایک نے بے چینی سے اپنی ننھی مٹھی میں اس کا لباس تھام کر اپی جانب کھنچا
بھوک و پیاس ،خوف و ہراس کی شدتیں نے ان کمزور ہاتھوں سے زندگی کی رمق چھین رہی تھیں بچو! امی کے پاس بیٹھو
اس نے دل کو سخت کر کے بھیگے لہجے میں کہا
معصوم فرشتے اندھیرے میں امی امی کرتے اپنی مائوں کی طرف بڑھ گئے آنکھوں سے گرتے موتیوں کی لڑیاں اپنا تسلسل قائم رکھے ہوئے تھیں دانتوں سے ہونٹ کاٹتی سناٹے میں نگاہ دوڑانے لگی گویا دیکھ رہی تھی سب ٹھیک تو ہے نا
اس کے ہواس جو چند گھنٹے قبل تک پرسکون تھے  اب شیر کی مانند تھے ایک خفیف سی سر سراہٹ میں پوشیدہ مقصد سمجھ جاتے تھے ہلکے ہلکے دھویں اور چاند کی چاندنی میں اس کا وجود پراسرار سا محسوس ہو رہا تھا لمبا لباس دھیمی دھیمی ہوا میں ہل رہا تھا اگر ہوا تیز چلتی تو ہوا کی آواز مزید ماحول میں پراسراریت و بھیانکی میں اضافہ کر دیتی تھی۔
 بہت مشکل ہے!
اس نے لباس سمیٹ کر اک طرف شکوہ بھری نگاہ سے دیکھا  چاند کی بادلوں سے چھپن چھپائی کسی کو اس کی آنکھوں تک دیکھنے نہیں دے رہی تھی جہاں اک سیلاب بہ بہ کر لباس کو بھگو رہا تھا دل میں اٹھنے والی موجیں تھیں کہ بس لگتا تھا طوفان کبھی ختم نا ہوگا۔
وہ خود کو سمجھا رہی تھی اتنی ذمہ داری تھی کہ بس اک مرد اس کی جگہ ہوتا تو وہ نہیں سنبھل پاتا نا اپنے اس بچے کچھے خاندان کو سنبھال پاتا یہ امتحان صرف وہ ہی دے سکتی تھی اور دے رہی تھی آں!!!! اک جھماکا سا ہوا وہ تیزی سے پلٹی
دھیمی سی آواز میں وہ پکاری  بھابھی کی گود میں لیٹا بچہ جو سہما ہوا تھا لرز اٹھا اس کا ننھا و کمزور دل کسی زرد ہوا میں جھومتے پتے کی طرح کانپنے لگا ماں نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھ دیا 
سینے سے لگا لیا مگر یہ دل قابو میں نہیں آرہا تھا پھپھی نے بھی سینے سے لگا لیا تو بچہ اب مطمئن ہو گیا یہ آنے والی پھپھی ہیں ماں کی طرح اس کی محافظ محبت کرنے والی
اب اس کا جسم جو خوف سے جھٹکے کھا رہا تھا پر سکون تھا جبتک پھپھی ماں سے بات کرتی رہی بچہ آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں اترنے لگااس کے پپوٹے بھاری ہونے لگے یہ نیند کیا چیز ہے جو موت کے دار پر بھی آجاتی ہے اور خوف کے شمشان گھاٹ پر بھی
وہ اٹھنے لگی کہ بھابھی نے روکا
جی بھابھی اس نے انکے کان میں سوال کیا تو انھوں نے اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے پیار انسان کو طاقت و ہمت دیتا ہے زخم پر مرہم لگاتا ہےاللہ کا نام لے کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اب چاروں طرف یوں دیکھ رہی تھی گویا اب کچھ اہم چیز ڈھونڈ رہی ہو چاندنی جیسا سفید بہتا لاوا اس وقت اس کے گلے کے کانٹوں کو ختم کر سکتا تھا دل کو ٹھنڈک اعتماد اور بہت کچھ دے سکتا تھا مگر اس وقت اس کو وہ نظر نہیں آرہا تھاوہ اس چاندی کے دریا کے قریب کسی سے ملنے گئی تھی وہ شاید لیٹا ہوا تھا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ 
شاید گرا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔شاید زخمی تھا  ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔نہیں وہ تو کھڑا ہوا تھا اسی طرف دیکھ رہا تھا گویا وہ منتظر تھا اس کو پتہ تھا وہ آئے گی چاند کی روشنی میں وہ سایہ لگ رہا تھا پتہ نہیں وہ واقعی بوڑھا تھا یا پھر اس کے کاندھے جھکے ہوئے تھے 
وہ نزدیک ہوئی۔ ۔ ۔ ۔  ۔ اور نزدیک ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ اور۔ ۔ ۔  اور۔ ۔ ۔  ۔ اور
کچھ پوچھا مگر اس کا نفی میں ہلتا سر دیکھ کر وہ تیزی سے پلٹی وہ اس کے ہم قدم ہو گیا اس کے جھکے کاندھے کمزوری کی علامت تھے وہ تھکا ہوا کمزور لگ رہا تھا
وہ کچھ دور نکل آئی پلٹی دیکھا وہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے وہ پھر آگے بڑھنے لگی اس حصے میں قدم رکھنے سے اس کا دل کانپ اٹھا وہ جھجھکی چند گھنٹے فلم کی طرح اس کی آنکھوں میں اترنے لگے وہ سسکی اس کا دل چاہا اس ہمقدم ہستی سے الجھے کیوں کیوں ۔ ۔ ۔  ۔کیوں ۔ ۔ ۔ اکیلا چھوڑ دیا تنہا کر دیا۔ ۔  ۔ ۔اتنی تنہائی ۔ ۔ ۔ 
اس کے سراپے میں بہتے اضطراب کے سمندر کو وہ سمجھ گیا اس نے سر اوپر اٹھایابے زبانی کے عالم میں چیخ ماری  اس کی چیخوں سے سارا علاقہ  ۔ ۔ ۔  زلزلے۔ ۔  ۔ ۔  کی زد میں آگیا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر سر جھکا لیا گویا ۔ ۔  ۔کہ رہا ہو تیری مرضی معبود تو 
تو ۔ ۔  ۔ ۔حکیم ہے
اب وہ مزید آگے بڑھی دور دور تک سناٹا تھا ڈھول کی تھاپ۔ ۔  ۔ ۔گھنگرو کی آواز۔ ۔ ۔ ۔  ۔ مشینوں کی لوہا تیز کرتی بھیانک آواز۔ ۔ ۔ ۔  قہقہے ۔ ۔ ۔  ۔ خوں آشام بھیڑیوں کی شراب میں ڈوبی آوازیں  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔
اچانک اس کو ہوش آیا بچے ان آوازوں سے ڈر رہے تھے ک۔ ۔  ۔ ۔ک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔و۔ و۔ ۔ ۔ و اس نے بے ربط لفظوں سے سوچا
چاندنی اب اس حصے میں کم تھی بلکہ تقریبا نا ہونے کے برابروہ زمین سے الجھتی آگے بڑھ رہی تھی جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی سیاہی مائل جھیلیں اس کے قدموں  کی رفتار کو توڑ رہی تھیں وہ کپڑے سنبھالے چاند کی روشنی میں آگے بڑھتی شاید سوچ رہی تھی لباس اس سے آلودہ نہ ہو جائے پھر نماز کیسے پڑھے گی۔
اک بار دور دور تک نگاہ دوڑائی  اس کے کانوں میں آشنا آواز گونجی جس سے اس کو عشق تھا
یہ بھیڑیے ہیں ہمیں چیر پھاڑ ہی کھائیں گے نا؟ اک دن ایسا آئے گا تم دیکھو گی کہ اس میدان میں جہاں آج تم تنہا و پریشان کھڑی ہو  یہاں پر دنیا کھڑی ہوگی تم سے ملنے آئے گی تمھاری قیامت تک مدد کرنے آئے گی پھر
ہمارا اک بیٹا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے دھیمے لہجے سے نکلنے والی پھوار نے اس کو بھگونا شروع کر دیا 
وہ ان بھیڑیوں سے بدلہ لے گا۔
آواز میں سوز تھا امید تھی  
اس کے مدو جزر میں شوق دیدار تھا
بھائی وہ زیر لب بڑبڑائی اس کے زخمی ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری قدموں میں استحکام پیدا ہواپھر وہ آگے بڑھنے لگی اب سامنے اک عدد کھائی تھی اس کو دیکھتے ہی اس کا رنگ اڑ گیا وہ پلٹی اس نے اپنے ہمقدم کی طرف نگاہ کی وہ اس کی طرف بھاگا  الجھا ۔ ۔ ۔ گرا ۔ ۔ ۔ پھر اٹھا  ۔ ۔ پھر گرا وہ پتہ نہیں بار بار کیوں گر رہا تھا کیا قدموں میں زخم ہیں؟ جو اس کو چلنے نہیں دے رہے ہیں؟ ۔ ۔  ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ گر کر فوری کیوں نہیں اٹھ پا رہا؟ کیا اس کے ہاتھوں میں کچھ ہے یا پھر ہاتھ ہی نہیں ہیں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم تو لوگوں کی مدد کیلئے بجلی کی طرح پہنچ جاتے ہو کیا ہوا کہ اب تک وہ اکیلی ہے؟
تم تو یتیم پرور ہو چلو نا وہ بھی یتیم ہے اکیلی و تنہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہ پھر آگے بڑھی اس کے قریب اب بہت سے لوگوں کا ہجوم تھا جو نادیدہ تھا مگر وہ دیکھ سکتا تھا وہ دیکھ رہا تھا ہاں
اس کو نظر آرہا تھا ۔ ۔ ۔  ۔ ۔  ۔ ہر ایک اس کی طرح جوانی میں بوڑھا لگ رہا تھا شاید وہ سسکی مار کر رویا 
تم نے تو میرے فرشتوں سے ہزار گنا معصوم دادا کو رلا دیا بابا کو رلا دیا تم کیسے لوگ ہو اس نے بھیڑیوں سے سوال کیا
اب وہ اک کھائی کے قریب کھڑی تھی چاند کی روشنی نا ہونے کے برابر تھی قدم ڈگمگانے لگے ہمت ٹوٹنے لگی ہونٹ بھینچ گئے دونوں بازوں سینہ پر لپیٹ لئے  صبر کرنا تم اس کے کانوں میں بوڑھے نانا کے الفاظ گونجے
وہ ہم قدم پیچھے نا امیدی سے الجھتا بھاگا چلا آرہا تھا اندھیرے میں بمشکل آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں اب صرف پرجھائیاں ہی تھیں بس سناٹا چادر کھولے سائبان کی مانند پہرہ دے رہا تھا چاندنی بادلوں کی اوٹ سے گھاٹی کے کونے سے اس پے نگاہ رکھے تھی ایسا لگ رہا تھا چاندنی گھاٹی کی گھرائی کو آنکھوں پے رکھے رو رہی ہو اس کے حال پے وہ اب اس اندھیرے می چاروں طرف دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی اس کو کچھ نظر آیا یہ اس کا درد آشنا ،محبوب ،سپہ سالار ،عشق کا سراپا تھا۔ ۔ ۔
اس گہرائی میں اس کو وہ مل گیا جس کی خاطر وہ اتنی دور آئی تھی
اس کو پتہ تھا کہ وہ اکیلی نہیں ہے اس کے ساتھ ہم قدم ،اس صحرا کے زرے ،آسمان کے فرشتے ،یہ چاند اور اسکی چاندنی ہیں وہ اکیلی نا تھی  میں تھی اس کے ساتھ اور ہر وہ شخص جو کہ صاحب دل ہے