اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

بحرینی راہنما: سعودی عرب مداخلت کرے تو ایران سے مدد مانگیں گے

بحرینی راہنما: سعودی عرب مداخلت کرے تو ایران سے مدد مانگیں گے

بحرین کے انقلابی راہنما نے امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر سعودی عرب نے بحرین کے معاملات میں مداخلت کی ی رپورٹ کے مطابق، بحرین کی جماعت “حرکةالحق” کے سربراہ شیخ حسن المشیمع نے کہا ہے کہ اگر سعودی فوج بحرین کے معاملات میں مداخلت کرے تو ایرانی مسلح افواج کو بھی مظاہرین کے حق میں مداخلت کا پورا پورا حق ہے۔

المشیمع نے لبنانی روزنامے الاخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: اگر بحرینی حکومت عوامی انقلاب سے نجات پانے کی غرض سے سعودی افواج سے مدد مانگے تو ایسی صورت میں انقلابی قوتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایران سے مدد طلب کریں اور اس ملک سے اپنے حق میں مداخلت کی درخواست کریں۔
انھوں نے کہا: حتی ایک ملک میں اخلاقی مداخلت بھی اس ملک کے اندرونی مداخلت سمجھی جاتی ہے چہ جائیکہ کوئی ملک کسی ملک کے اندرونی معاملات میں فوجی مداخلت کرے۔
انھوں نے کہا کہ بحرین کے معاملات میں مداخلت عام طور پر خلیج فارس تعاون کونسل کے ذریعے انجام پاتی ہے۔تو وہ ایران سے مدد مانگ سکتے ہیں۔
کیا سعودی عرب واقعی بحرین کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے؟ المشیمع نے الاخبار کے اس سوال کے جواب میں کہا: میں سعودی مداخلت کے بارے میں بعض پراپیگنڈوں کی تردید یا تصدیق نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سعودی عرب کی جانب سے ہر قسم کی مداخلت ـ خواہ وہ بحرین میں فوج بھیجنے کی صورت میں ہو خواہ اپنی افواج کی کمانڈ بحرینی حکومت کے سپرد کرنے کی صورت میں ہو ـ بحرین کے معاملات میں ریاض کی کھلی مداخلت اور اس ملک کی سالمیت کے تقاضون اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے شیخ عبداللطیف محمود نامی سنی رہنما کی قیادت میں سنی سوسائٹی کی تشکیل اور ان کی طرف سے بحرینی انقلابی قوتوں کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اپیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں ان کی اس درخواست پر کوئی مثبت پیغام نہیں دینا چاہتا بلکہ ہمارا خیال ہے کہ اس تنظیم کی تشکیل در حقیقت الخلیفہ خاندان کے اقدامات میں شمار ہوتی ہے اور حکومت ان اقدامات کے ذریعے عوامی انقلاب کو بے اثر کرنا چاہتی ہے۔
انھوں نے کہا: بحرینی حکومت گذشتہ برسوں سے اس طرح کی چالوں کی عادی چلی آرہی ہے اور میرے خیال میں ہمارے اہل سنت برادران کی شان و عظمت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ وہ وطن اور سرزمین کی بجائے ایک خاندان کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
کیا بحرینی انقلاب واضح طور پر نظام حکومت کے مکمل خاتمے کا خواہاں ہے؟ یا پھر وہ ملک میں آئینی سلطنت کا قیام چاہتا ہے؟
شیخ حسن المشیمع نے روزنامہ الاخبار کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: عوامی قیام اور موجودہ تحریک کے آغاز سے قبل ہم اصلاحات اور آئینی بادشاہت کے خواہاں تھے لیکن بحرین میں اتنے افراد کی شہادت کے بعد ـ جن کی تعداد بحرین کی چھوٹی آبادی کی نسبت بہت زیادہ ہے ـ ہم سب کا اعتقاد یہ ہے کہ شہیدوں کے خون کی قیمت نظام حکومت کی مکمل سرنگونی سے کسی صورت بھی کم نہیں ہونی چاہئے اور عوام کا حق ہے کہ وہ نظام حکومت کی سرنگونی کا مطالبہ کریں اور آل خلیفہ کے خاندان پر اعتماد نہ کریں۔
بحرین کے برسراقتدار خاندان نے پر امن مظاہرین کے خلاف نہایت وحشیانہ اقدام کیا اور لوگوں کا قتل عام کیا اور میرے خیال میں یہ خاندان ایسے اقدامات کرکے بہت بڑی غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ برطانوی نظام حکومت میں آئینی سلطنت کچھ یوں ہے کہ شاہ یا ملکہ صرف نمائشی حکمران ہیں اور شاہ یا ملکہ یا اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی کبھی وزیر نہیں ہوسکتا اور ملک کے کسی اعلی منصب پر فائز نہیں ہوسکتا لیکن حتی بحرین میں اس طرح کی سلطنت کا مسئلہ بھی عوامی رائے سے وابستہ ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد