اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات

انسانی اخلاق سے مراد مکارم اخلاق ہے جن کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق – مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے (بحارالانوار ج 71 ص 420) 

ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ علیکم بمکارم الاخلاق فان اللہ بعثنی بھا وان من مکارم الاخلاق ان یعفوا عمن ظلمہ و یعطی من حرمہ و یصل من قطعہ و ان یعودمن لایعودہ۔ یہ مکارم اخلاق میں سے ہے کہ انسان اس پر ظلم کرنے والے کو معاف کر دے ، اس کے ساتھ تعلقات و رشتہ برقرار کرے جس نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے ،اور اس کی طرف لوٹ کر جائے جس نے اسے چھوڑ دیا ہے (ہندی ج 3 طبرسی ج 10ص333) 

مکارم اخلاق ،انسانی اخلاق اور حسن خلق میں کیا فرق ہے ؟آئیے لغت کا سہارا لیتے ہیں ، 

مکارم مکرمۃ کی جمع ہے اور مکرمہ کی اصل کرم ہے۔ کرم عام طورسے اس کام کو کہا جاتا ہے جسمیں عفو و درگذر اور عظمت و بزرگواری ہو یا بالفاظ دیگر وہ کام غیر معمولی ہوتا ہے چنانچہ اولیا ء اللہ کے غیر معمولی کاموں کو کرامت کہا جاتا ہے۔ 

راغب مفردات میں کہتے ہیں کہ کرم ان امور کو کہا جاتا ہے جو غیر معمولی اور با عظمت ہوں اور جو چیز شرافت و بزرگواری کی حامل ہو اسے کرم سے متصف کیا جاتا ہے۔ بنا بریں مکارم اخلاق محاسن اخلاق سے برتر و بالا ہیں۔ البتہ روایات میں ان دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ حسن خلق سے مراد وہ اچھے اخلاق ہیں جو حد اعتدال میں تربیت یافتہ لوگوں میں ہوتے ہیں۔ اسی امر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا الخلق الحسن لاینزع الا من ولد حیضۃ او ولد زنۃ۔ حسن خلق پاک و پاکیزہ انسان کا لازمہ ہے 

ہے جو فطرت و خلقت کے لحاظ سے پاک پیدا ہوا ہے اور حیض یا زناسے پیدا ہونے والا ہی حسن خلق کا حامل نہیں ہوتا شاید اسی بنا پر روایات میں حسن خلق کے مراتب ذکر کئے گئے ہیں اور جس کا اخلاق جتنا اچھا ہو گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا ، حدیث شریف میں ہے "اکمل المومنین ایمانا"احسنہم خلقا"اس مومن کا ایمان کامل تر ہے جس کا اخلاق بہتر ہے۔ (مجلس ص 389 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے کہ ان من احبکم الی احسنکم خلقا "تم میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا اخلاق زیادہ اچھا ہو۔ 

مکام اخلاق حد اعلائے حسن خلق کو کہتے ہیں اور اسے ہم کرامت نفس ، اخلاق کریمانہ بھی کہ سکتے ہیں۔ 

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہے "احسن الاخلاق ما حملک علی المکارم"سب سے اچھے اخلاق وہ ہیں جو تمہیں مکارم اخلاق کی منزل تک لے جائیں۔ (غررالحکم ج 2 ص 462) مثال کے طور پر اچھے اخلاق میں ایک یہ ہے کہ انسان دوسروں کے حق میں نیکی اور احسان کرے اس کے بھی مرتبے ہیں۔ 

بعض اوقات کوئی کسی کے حق میں نیکی کرتا ہے جس کے حق میں نیکی کی گئی ہے اس کا انسانی ، اسلامی اور عرفی فریضہ ہے کہ وہ احسان کے بدلے احسان کرے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں کہتا ہے۔ ھل جزاء الاحسان الاحسان (الرحمن 60)کیا احسان کی جزاء احسان کے علاوہ کچھ اور ہو گی؟ 

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ، ہشام ابن حکم سے اپنے وصیت نامے میں فرماتے ہیں یا ہشام قول اللہ عزوجل ھل جزا ء الاحسان الا الاحسان جرت فی المومن والکافر و البر والفاجر۔ من صنع ا لیہ معرف فعلیہ ان یکافی بہ ولیست المکافاۃ ان تصنع کما صنع حتی تری فضلک فان صنعت کما صنع فلہ الفضل بالابتداء۔ 

اے ہشام خدا کا یہ فرمان کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ اس میں مومن و کافر ، نیک اور بدسب مساوی ہیں۔ (یعنی یہ تمام انسانوں کے لئے ضروری ہے ) جس کے حق میں نیکی کی جاتی ہے اسے اس کا بدلہ دینا چاہئے اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہی نیک کام انجام دیدیا جائے کیونکہ اس میں کوئی فضل و برتری نہیں ہے اور اگر تم نے اسی کی طرح عمل کیا تو اس کو تم پر نیک کام کا آغاز کرنے کی وجہ سے برتری حاصل ہو گی۔ 

یہ وصیت نامہ علی بن شعبہ نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔ 

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نیکی کے بدلے میں نیکی نہیں کرتا بلکہ اپنے اخلاقی اور انسانی فریضے کے مطابق اپنے بنی نوع کے کام آتا ہے اسکی مشکل دور کر دیتا ہے ، اسکی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ دراصل ہر انسان اپنے بنی نوع کے لئے ہمدردی اور محبت کے جذبات رکھتا ہے۔ 

بقول سعدی 

بنی آدم اعضای یکدیگرند۔ 

کہ درآفرینش زیک گوہرند۔ 

جو عضوی بہ درد آورد روزگار۔ 

دگر عضوھارا نماند قرار۔ 

اس سے بڑھ کر مکرمت اخلاقی اور کرامت نفس کا مرحلہ ہے۔ جسے ہم مکارم اخلاق کہتے ہیں۔ اسکی مثال اذیت و آزار کے بدلے میں نیکی کرنا ہے جبکہ وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن برائی کے بجائے نیکی اور احسان کرتا ہے یعنی نہ صرف انتقام اور بدلہ نہیں لیتا بلکہ بدی کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور نیکی سے جواب دیتا ہے قرآن کریم کے مطابق۔ ادفع بالتی ہی احسن السئیۃ ( مومنون 96) اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعے رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں۔ 

بقول شاعر۔ 

بدی رابدی سھل باشد جزا 

اگر مردی احسن الی من اساء 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ العفو تاج المکارم۔ عفوو درگزشت مکارم اخلاق میں سب سے اعلی ہے۔ (عزرالحکم ج 1 ص 140) 

یہ آیات کریمہ ہماری بیان کر دہ باتوں کا ثبوت ہیں اور ان میں اخلاق کریمانہ کی پاداش بھی بیان کی گئی ہے "والذین اذا اصابھم البغی ہم ینتصرون۔ وجزاء السیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظالمین۔ ولمن انتصر بعد طلبہ فاولئک ماعلیھم من بیل۔ ولمن صبر و غفر ان ذالک من عزم الامور۔(شوری 39-43) 

"اور جب ان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کا بدلہ لے لیتے ہیں اور ہر برائی کا بدلہ اس کے جیسا ہوتا ہے پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کر دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ یقیناً ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ اور جو شخص ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلاتے ہیں انہیں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اور یقیناً جو صبر کرے اور معاف کر دے تو اس کا یہ عمل بڑے حوصلے کا کام ہے۔ 

اس آیت سے چند امور واضح ہوتے ہیں۔ 

1۔ ستم رسیدہ کو انتقام لینے کا حق ہے کیونکہ بدی کا بدلہ عام طور سے بدی ہے۔ 

2۔ لیکن اگر معاف کر دے اور اسکے بعد اصلاح کرے (یعنی برائی اور ظلم و ستم کے آثار کو ظاہرا اور باطنا مٹا دے ) تواس کا اجر خدا پر ہو گا(اسکی کوئی حد نہیں ہو گی) 

3۔ اگرستم رسیدہ انتقام لینا چاہے اور بدلہ لے توکسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر صبر کرے اور عفو و درگزر سے کام لے تو اس نے نہایت حوصلے کا کام کیا ہے۔ 

آیت اللہ شہید مطہری نے اپنی کتاب فلسفہ اخلاق میں "فعل فطری اور فعل اخلاقی"کی بحث میں مکارم اخلاق کے سلسلے میں دلچسپ تحقیقات پیش کی ہیں اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم اخلاق کے بعض جملے نقل کئے ہیں۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں اللھم صلی علی محمد وآل محمد وسددنی لان اعارض من غشنی بالنصح و اجزی من ھجرنی بالبر و اثیب من حرمنی بالبذل واکافی من قطعنی بالصلۃ و اخالف من اغتابنی الی حسن الذکر و ان اشکرالحسنۃ او اغضی عن السیئۃ۔ اے پروردگار محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما ا ور مجھے توفیق دے کہ جو مجھ سے غش و فریب کرے میں اس کی خیر خواہی کروں ،جو مجھے چھوڑ دے اس سے حسن سلوک سے پیش آؤں جو مجھے محروم کرے اسے صلہ رحمی کے ساتھ بدلہ دوں اور پس پشت میری برائی کرے میں اس کے برخلاف اس کا ذکر خیر کروں اور حسن سلوک پر شکریہ ادا کروں اور بدی سے چشم پوشی کروں۔ 

اس کے بعد شہید مطہری عارف نامدار خواجہ عبداللہ انصاری کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا کام ہے ، نیکی کا جواب نیکی سے دینا گدھوں کا کام ہے اور بدی کا جواب نیکی سے دینا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔ 

واضح رہے اس سلسلے میں بے شمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں یہاں پر ہم ایک حدیث نقل کر رہے ہیں جو مرحوم کلینی نے ابوحمزہ ثمالی کے واسطے سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ثلاث من مکارم الدینا والآخرۃ، تعفوا عمن ظلمک و تصل من قطعک و تحلم اذا جھل علیک۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین چیزیں دنیا و آخرت میں اچھی صفات میں شمار ہوتی ہیں (انسان کو ان سے دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچتا ہے )وہ یہ ہیں کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو،اور جو تمہیں محروم کرے اس سے صلہ رحم کرو اور جو تمہارے ساتھ نادانی کرے اس کے ساتھ صبر سے کام لو۔ 

کلینی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک خطبے میں فرمایا الا اخبرکم بخیر خلائق الدنیا و الآخرہ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک و الاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں دنیا و آخرت کے بہترین اخلاق سے آگاہ نہ کروں ؟ اسے معاف کر دینا جوتم پر ظلم کرے۔ اس سے ملنا جو تمہیں چھوڑ دے اس پر احسان کرنا جس نے تمہارے ساتھ برائی کی ہو۔ اسے نوازنا جس نے تمہیں محروم کر دیا ہو۔ ان ہی الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک اور روایت نقل ہوئی۔ 

یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکارم اخلاق بیان کرنا کسی انسان کا کام نہیں کیونکہ آپ کے بارے میں خداوند قدوس فرماتا ہے کہ انک لعلی خلق عظیم۔ (اصول کافی باب حسن الخلق) قلم آپ کے فضائل و کرامات بیان کرنے سے عاجز ہے۔ جو امور ذیل میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ آپ کے محاسن و مکارم اخلاق کے سمندر کا ایک قطرہ بھی نہیں ہیں۔ 

مرحوم محدث قمی کا کہنا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں سمونے یا آفتاب کو روزن دیوار سے گھر میں اتارنے کے مترادف ہے لیکن بقول شاعر 

آب دریا را اگر نتواں کشید 

ہم بقدرتشنگی باید چشید

حضرت خدیجہ ع اور حفاظت رسول ص

حضرت خدیجہ ع اور حفاظت رسول ص
حضرت خدیجہ ع رسول ص کی نیک سیرت و تمام عالمین کی خواتین کیلئے نمونہ خاتون ہیں.جس وقت سورہ حجرات ۹۴۔۹۵ نازل ہوئیں رسول ص نے کوہ صفا و مروہ پر جاکر اعلان کیا.
کوہ مروہ پر جب اعلان فرمایا تو ابوجہل نے گستاخی کی پتھر اٹھا کر رسول ص کی طرف پھنکا تمام مشرکین جو اس وقت وہاں موجود تھے انھون نے بھی ابوجہل کے ساتھ سنگ باری کی تو رسول ص پہاڑوں کی طرف چلے گئے کسی نے اس بات کی اطلاع امام علی ع کو دی اور بتایا کہ رسول ص شہید ہو گئے ہیں امام علی ع بے چین ہوکر رسول ص کے گھر چلے گئے اور یہ اطلاع دی کہا آپ پانی و غذا مجھے دے دیں یا پھر پانی و غذا ساتھ لے کر میرے ساتھ چلیں حضرت خدیجہ ع نے جوں ہی یہ سنا تو برداشت نا کرسکیں پانی و غذا لے کر امام علی ع کے ساتھ نکلیں جن کی عمر ابھی صرف ۱۳ سال تھی آپ رسول ص کو تلاش کررہے تھے مگر رسول ص نہ ملے تو امام علی ع نے فرمایا آپ کوہ میں تلاش کریں میں پہاڑ پر تلاش کرتا ہوں دونوں عشاق رسول ص پریشان روتے ہوئے تلاش کر رہے تھے ادھر رسول ص کے پاس جبرائیل تشریف لائے رسول ص کی دل جوئی کرنے لگے فرشتے رسول ص کے پاس آئے کہ اجازت لے کر قوم کو تباہ و برباد کر دیں مگر رسول ص نے فرمایا :میں رحمۃ العالمیں ہوں میں یہ اجازت نہیں دوں گا میری قوم نادان ہے جبرائیل علیہ السلام نے رسول ص سے فرمایا یا رسول ص اللہ خدیجہ گریہ کر رہی ہیں جس کی وجہ سے آسمان کے فرشتے بھی گریہ کر رہے ہیں ان کو اپنی طرف بلا لیں اور ان کی خدمت میں میرا سلام پیش کردیں اور ان کو کہ دیں کہ اللہ بھی آپ پر سلام بھیجتا ہے۔ ان کو یہ خوشخبری بھی سنا دیں کہ اللہ نے ان کیلئے جنت میں ایک بہت خوبصورت گھر مخصوص کیا ہے جو شیشے اور سونے سے تیار کیا گیا ہے اس گھر میں کسی قسم کا رنج و پریشانی نہ ہوگی۔ اس وقت جناب رسول ص نے جناب خدیجہ کو آواز دی اس آواز پر خدیجہ جہاں بھی تھیں فورا پیغمبر ص کے نزدیک پہنچ گئیں کیا دیکھتی ہیں کہ رسول ص کی پیشانی مبارک سے دو آنکھوں کے درمیان سے خون کے قطرات(اس زخم سے جوابوجہل کے پتھر سے ہوا تھا) زمین پر گر رہے ہیں آپ اس خون کو صاف کر رہے ہیں جناب خدیجہ ع نے جب اپنے شوہر نامدار ، سرور دو جہاں ،مجبوب خدا کو اس حالت میں دیکھا تو درد بھری آہ کھینچی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اس خون کے قطرات کو زمیں پر گرنے دیں پیغبر خدا نے فرمایا میں پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں کہ وہ اس وجہ سے زمیں پر عذاب نازل نہ کردے۔ جب رات آ پہنچی تو پیغمبر ص نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت علی و جناب خدیجہ کے ہمراہ واپس اپنے گھر لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح کچھ ہی دیر کے بعد اپنے گھر پہنچ گئے ۔جناب خدیجہ نے گھر کے اس کمرے میں رسول ص کو بٹھایا جس کی دیواریں پتھروں سے بنی ہوئی تھیں اس کمرے کی چھت کو بھی مضبوط لکڑی یا چوڑے پتھروں سے آراستہ کیا گیا تھا آپ پر چادر ڈال دی اور خود آپ کے آگے سینہ سپر ہوگئیں. 
مشرکیں مکہ آئے اور انھوں نے ہرطرف سے پتھر پھینکنے شروع کردیئے مضبوط دیواروں اور چھت کی وجہ سے پتھر اندر داخل نہ ہو سکتے تھے .
لیکن سامنے سے جہاں جناب خدیجہ ع کھڑی تھیں پتھر اندر داخل ہورہے تھے جن کو جناب خدیجہ ع خود اپنے ہاتھوں سے روک رہی تھیں کچھ پتھر جناب خدیجہ ع کو لگ رہے تھے اس طرح جناب خدیجہ ع پیغمبر کو دشمن کی سنگ باری سے بچا رہی تھیں فریاد بھی کر رہی تھیں کہ اے اہل قریش کیا تم ایک آزاد عورت کو اس کے گھر میں سنگ باران کرنا چاہتے ہو؟ جب مشرکین نے اس فریاد کو سنا تو وہ پتھر پھینکنے سے ٹل گئے اور وہاں سے چلے گئے اگلے روز صبح صبح رسول ص گھر سے نکلے اور کعبہ چلے گئے ۔ کعبہ میں جاکر نماز ادا کی اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کر کرنے لگے۔

کتاب:ام المومنین ملیکۃ العرب خدیجۃ الکبریِ , مولف: علامہ محمد محمدی اشتہاردی , صفحہ نمبر:۱۵۶ سے ۱۶۱

اس رات کیا ہوا؟

اس رات کیا ہوا؟
ننھے ننھے ہاتھ اس کے پائوں سے لپٹ گئے
پھپھو!
ایک نے بے چینی سے اپنی ننھی مٹھی میں اس کا لباس تھام کر اپی جانب کھنچا
بھوک و پیاس ،خوف و ہراس کی شدتیں نے ان کمزور ہاتھوں سے زندگی کی رمق چھین رہی تھیں بچو! امی کے پاس بیٹھو
اس نے دل کو سخت کر کے بھیگے لہجے میں کہا
معصوم فرشتے اندھیرے میں امی امی کرتے اپنی مائوں کی طرف بڑھ گئے آنکھوں سے گرتے موتیوں کی لڑیاں اپنا تسلسل قائم رکھے ہوئے تھیں دانتوں سے ہونٹ کاٹتی سناٹے میں نگاہ دوڑانے لگی گویا دیکھ رہی تھی سب ٹھیک تو ہے نا
اس کے ہواس جو چند گھنٹے قبل تک پرسکون تھے  اب شیر کی مانند تھے ایک خفیف سی سر سراہٹ میں پوشیدہ مقصد سمجھ جاتے تھے ہلکے ہلکے دھویں اور چاند کی چاندنی میں اس کا وجود پراسرار سا محسوس ہو رہا تھا لمبا لباس دھیمی دھیمی ہوا میں ہل رہا تھا اگر ہوا تیز چلتی تو ہوا کی آواز مزید ماحول میں پراسراریت و بھیانکی میں اضافہ کر دیتی تھی۔
 بہت مشکل ہے!
اس نے لباس سمیٹ کر اک طرف شکوہ بھری نگاہ سے دیکھا  چاند کی بادلوں سے چھپن چھپائی کسی کو اس کی آنکھوں تک دیکھنے نہیں دے رہی تھی جہاں اک سیلاب بہ بہ کر لباس کو بھگو رہا تھا دل میں اٹھنے والی موجیں تھیں کہ بس لگتا تھا طوفان کبھی ختم نا ہوگا۔
وہ خود کو سمجھا رہی تھی اتنی ذمہ داری تھی کہ بس اک مرد اس کی جگہ ہوتا تو وہ نہیں سنبھل پاتا نا اپنے اس بچے کچھے خاندان کو سنبھال پاتا یہ امتحان صرف وہ ہی دے سکتی تھی اور دے رہی تھی آں!!!! اک جھماکا سا ہوا وہ تیزی سے پلٹی
دھیمی سی آواز میں وہ پکاری  بھابھی کی گود میں لیٹا بچہ جو سہما ہوا تھا لرز اٹھا اس کا ننھا و کمزور دل کسی زرد ہوا میں جھومتے پتے کی طرح کانپنے لگا ماں نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھ دیا 
سینے سے لگا لیا مگر یہ دل قابو میں نہیں آرہا تھا پھپھی نے بھی سینے سے لگا لیا تو بچہ اب مطمئن ہو گیا یہ آنے والی پھپھی ہیں ماں کی طرح اس کی محافظ محبت کرنے والی
اب اس کا جسم جو خوف سے جھٹکے کھا رہا تھا پر سکون تھا جبتک پھپھی ماں سے بات کرتی رہی بچہ آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں اترنے لگااس کے پپوٹے بھاری ہونے لگے یہ نیند کیا چیز ہے جو موت کے دار پر بھی آجاتی ہے اور خوف کے شمشان گھاٹ پر بھی
وہ اٹھنے لگی کہ بھابھی نے روکا
جی بھابھی اس نے انکے کان میں سوال کیا تو انھوں نے اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے پیار انسان کو طاقت و ہمت دیتا ہے زخم پر مرہم لگاتا ہےاللہ کا نام لے کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اب چاروں طرف یوں دیکھ رہی تھی گویا اب کچھ اہم چیز ڈھونڈ رہی ہو چاندنی جیسا سفید بہتا لاوا اس وقت اس کے گلے کے کانٹوں کو ختم کر سکتا تھا دل کو ٹھنڈک اعتماد اور بہت کچھ دے سکتا تھا مگر اس وقت اس کو وہ نظر نہیں آرہا تھاوہ اس چاندی کے دریا کے قریب کسی سے ملنے گئی تھی وہ شاید لیٹا ہوا تھا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ 
شاید گرا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔شاید زخمی تھا  ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔نہیں وہ تو کھڑا ہوا تھا اسی طرف دیکھ رہا تھا گویا وہ منتظر تھا اس کو پتہ تھا وہ آئے گی چاند کی روشنی میں وہ سایہ لگ رہا تھا پتہ نہیں وہ واقعی بوڑھا تھا یا پھر اس کے کاندھے جھکے ہوئے تھے 
وہ نزدیک ہوئی۔ ۔ ۔ ۔  ۔ اور نزدیک ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ اور۔ ۔ ۔  اور۔ ۔ ۔  ۔ اور
کچھ پوچھا مگر اس کا نفی میں ہلتا سر دیکھ کر وہ تیزی سے پلٹی وہ اس کے ہم قدم ہو گیا اس کے جھکے کاندھے کمزوری کی علامت تھے وہ تھکا ہوا کمزور لگ رہا تھا
وہ کچھ دور نکل آئی پلٹی دیکھا وہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے وہ پھر آگے بڑھنے لگی اس حصے میں قدم رکھنے سے اس کا دل کانپ اٹھا وہ جھجھکی چند گھنٹے فلم کی طرح اس کی آنکھوں میں اترنے لگے وہ سسکی اس کا دل چاہا اس ہمقدم ہستی سے الجھے کیوں کیوں ۔ ۔ ۔  ۔کیوں ۔ ۔ ۔ اکیلا چھوڑ دیا تنہا کر دیا۔ ۔  ۔ ۔اتنی تنہائی ۔ ۔ ۔ 
اس کے سراپے میں بہتے اضطراب کے سمندر کو وہ سمجھ گیا اس نے سر اوپر اٹھایابے زبانی کے عالم میں چیخ ماری  اس کی چیخوں سے سارا علاقہ  ۔ ۔ ۔  زلزلے۔ ۔  ۔ ۔  کی زد میں آگیا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر سر جھکا لیا گویا ۔ ۔  ۔کہ رہا ہو تیری مرضی معبود تو 
تو ۔ ۔  ۔ ۔حکیم ہے
اب وہ مزید آگے بڑھی دور دور تک سناٹا تھا ڈھول کی تھاپ۔ ۔  ۔ ۔گھنگرو کی آواز۔ ۔ ۔ ۔  ۔ مشینوں کی لوہا تیز کرتی بھیانک آواز۔ ۔ ۔ ۔  قہقہے ۔ ۔ ۔  ۔ خوں آشام بھیڑیوں کی شراب میں ڈوبی آوازیں  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔
اچانک اس کو ہوش آیا بچے ان آوازوں سے ڈر رہے تھے ک۔ ۔  ۔ ۔ک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔و۔ و۔ ۔ ۔ و اس نے بے ربط لفظوں سے سوچا
چاندنی اب اس حصے میں کم تھی بلکہ تقریبا نا ہونے کے برابروہ زمین سے الجھتی آگے بڑھ رہی تھی جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی سیاہی مائل جھیلیں اس کے قدموں  کی رفتار کو توڑ رہی تھیں وہ کپڑے سنبھالے چاند کی روشنی میں آگے بڑھتی شاید سوچ رہی تھی لباس اس سے آلودہ نہ ہو جائے پھر نماز کیسے پڑھے گی۔
اک بار دور دور تک نگاہ دوڑائی  اس کے کانوں میں آشنا آواز گونجی جس سے اس کو عشق تھا
یہ بھیڑیے ہیں ہمیں چیر پھاڑ ہی کھائیں گے نا؟ اک دن ایسا آئے گا تم دیکھو گی کہ اس میدان میں جہاں آج تم تنہا و پریشان کھڑی ہو  یہاں پر دنیا کھڑی ہوگی تم سے ملنے آئے گی تمھاری قیامت تک مدد کرنے آئے گی پھر
ہمارا اک بیٹا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے دھیمے لہجے سے نکلنے والی پھوار نے اس کو بھگونا شروع کر دیا 
وہ ان بھیڑیوں سے بدلہ لے گا۔
آواز میں سوز تھا امید تھی  
اس کے مدو جزر میں شوق دیدار تھا
بھائی وہ زیر لب بڑبڑائی اس کے زخمی ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری قدموں میں استحکام پیدا ہواپھر وہ آگے بڑھنے لگی اب سامنے اک عدد کھائی تھی اس کو دیکھتے ہی اس کا رنگ اڑ گیا وہ پلٹی اس نے اپنے ہمقدم کی طرف نگاہ کی وہ اس کی طرف بھاگا  الجھا ۔ ۔ ۔ گرا ۔ ۔ ۔ پھر اٹھا  ۔ ۔ پھر گرا وہ پتہ نہیں بار بار کیوں گر رہا تھا کیا قدموں میں زخم ہیں؟ جو اس کو چلنے نہیں دے رہے ہیں؟ ۔ ۔  ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ گر کر فوری کیوں نہیں اٹھ پا رہا؟ کیا اس کے ہاتھوں میں کچھ ہے یا پھر ہاتھ ہی نہیں ہیں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم تو لوگوں کی مدد کیلئے بجلی کی طرح پہنچ جاتے ہو کیا ہوا کہ اب تک وہ اکیلی ہے؟
تم تو یتیم پرور ہو چلو نا وہ بھی یتیم ہے اکیلی و تنہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہ پھر آگے بڑھی اس کے قریب اب بہت سے لوگوں کا ہجوم تھا جو نادیدہ تھا مگر وہ دیکھ سکتا تھا وہ دیکھ رہا تھا ہاں
اس کو نظر آرہا تھا ۔ ۔ ۔  ۔ ۔  ۔ ہر ایک اس کی طرح جوانی میں بوڑھا لگ رہا تھا شاید وہ سسکی مار کر رویا 
تم نے تو میرے فرشتوں سے ہزار گنا معصوم دادا کو رلا دیا بابا کو رلا دیا تم کیسے لوگ ہو اس نے بھیڑیوں سے سوال کیا
اب وہ اک کھائی کے قریب کھڑی تھی چاند کی روشنی نا ہونے کے برابر تھی قدم ڈگمگانے لگے ہمت ٹوٹنے لگی ہونٹ بھینچ گئے دونوں بازوں سینہ پر لپیٹ لئے  صبر کرنا تم اس کے کانوں میں بوڑھے نانا کے الفاظ گونجے
وہ ہم قدم پیچھے نا امیدی سے الجھتا بھاگا چلا آرہا تھا اندھیرے میں بمشکل آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں اب صرف پرجھائیاں ہی تھیں بس سناٹا چادر کھولے سائبان کی مانند پہرہ دے رہا تھا چاندنی بادلوں کی اوٹ سے گھاٹی کے کونے سے اس پے نگاہ رکھے تھی ایسا لگ رہا تھا چاندنی گھاٹی کی گھرائی کو آنکھوں پے رکھے رو رہی ہو اس کے حال پے وہ اب اس اندھیرے می چاروں طرف دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی اس کو کچھ نظر آیا یہ اس کا درد آشنا ،محبوب ،سپہ سالار ،عشق کا سراپا تھا۔ ۔ ۔
اس گہرائی میں اس کو وہ مل گیا جس کی خاطر وہ اتنی دور آئی تھی
اس کو پتہ تھا کہ وہ اکیلی نہیں ہے اس کے ساتھ ہم قدم ،اس صحرا کے زرے ،آسمان کے فرشتے ،یہ چاند اور اسکی چاندنی ہیں وہ اکیلی نا تھی  میں تھی اس کے ساتھ اور ہر وہ شخص جو کہ صاحب دل ہے

صدقہ

صدقہ

میں بس میں تھی جس میں ہر روز مسافر سفر کرتے ہیں بس تقریبا خالی تھی مسافر گویا آج اپنے گھروں میں ڈٹ کر سورہے تھے یا کاموں میں مصروف تھے اور میں اک لگے بندھے کام کیلئے رواں دواں تھی۔
بس کئی اسٹاپ پے رکی مگر اس میں کوئی مسافر نا چڑھا حتی کہ راستہ آدھا مکمل ہوگیا ڈرائیور انتہائی پریشانی کے عالم میں بار بار بس روکتا اور کنڈیکٹر آوازیں لگاتا کنڈیکٹر کا گلا خشک ہو چکا تھا اس کی تھکن مایوسی سب آواز کے سہارے اور بار بار اکا دکا مسافروں سے الجھنے سے صاف ظاہر تھی کوئی مسافر یہ تو نہیں کر سکتا تھا کہ جانا کہیں اور ہو جائے کسی اور بس میں 
اچانک اک بوڑھا  الٹے ہاتھ کی جانب سے نمودار ہوا اورgjfjڈرائیور نے جیب سے ۵ پیسے کا سکہ نکال کر اسکی ہتھیلی پر رکھ دیا بوڑھا لنگڑاتا ہوا واپس چلا گیا اور بس آگے بڑھ گئی 
اب آہستہ آہستہ صرف ۳ منٹ کے اندر بس میں ہجوم اتنا تھا کہ سانس لینا مشکل تھا۔
صدقہ بلا ٹالتا ہی نہیں روزی بھی لاتا ہے۔

Mery Mola Sjjad as

Mery Mola Sjjad as
  • 15 Jamadi ul awal   38 Hijri wiladat(date of birth)
  • 21 Ramzan 40 Hijri shahadat e imam Ali as ky moqy pr ap 2 sal ky thy.
  • 41 Hijri my jb Imam Hassan as ny hokomt chor di us waqt ap apny walid(father) ky sath Madina Tul munawara aagy,
  • 28 Safar ko  jab imam Hassan as ki shahadat hoi tb apny apny walid ky sath sabr kia 
  • Imam Hussain as ky bad apny Imamat ka ouhda apny kandhy py othaya.
  • 57 Hijri my Imam Mohamad Baqir as ki wiladat hoi.
  • Imam Sajjad as ki shadi imam Hassan as ki Betti Fatima as sy hoi.
  • 60 Rajab ko Imam Hussain ky dushman e iman Mawya ki death ho gai ows ky munafiq bety ny Baayat( hokomat qabool krny) ky ly boht zoor lagaya.
  • Imam Hussain as ny Madina chor dia or phr Makka aagy waha pr Munafiq ky bety Yazid ny Hjji ky libas my apny sipahi bhajy to apny wo bhi chor dia or Koffy ki trf rawana hoy mgr Yazid ki foj apko Krbala ly ai jo Sehra tha.
  • 2Mohram 11Hijri ko pani bnd kr dia  phr 10Mohram ko imam Hussain as and unki family sb shaheed ho gy.
  • Allah ki Maslehat thi ky ap ki tbyat itni kharab hoi ky ap uth bhi nahi skty thy isly shaheed  nahi ho sky.
  • Ab syed e Sajjad as imam e Momeenin thy.
  • 13 Mohram 61 Hijri ko ap ko apki family ky sath Qaid kia gaya Jaha apny azan e Haq kahi.
  • Qaid jaha kia gya waha pr soorj ki dhoop n Raat my thandak itni thi ky sb ky jism ki khaal phat gai.
  • Kafi Arsy bad apko and apki faimily ko rehai mili.