اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

اصحاب الجنہ

اصحاب الجنہ

سر سبز باغات کے مالک

قرآن میں پہلے زمانہ کے کچھ دولتمندوں کے بارے میں جو ایک سر سبز و شاداب باغ کے مالک تھے اور اخر کار وہ خود سرى کى بناء پر نابود ہوگئے تھے،ایک داستان بیان کرتا ہے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ داستان اس زمانہ لوگوں میں مشہور و معروف تھی،اور اسى بناء پر اس کو گواہى کے طورپر پیش کیا گیا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:

''ہم نے انھیں ازمایا ،جیساکہ ہم نے باغ والوں کى ازمائشے کى تھى _''

یہ باغ کہاں تھا ،عظیم شہر صنعا ء کے قریب سر زمین یمن میں ؟یا سر زمین حبشہ میں ؟یا بنى اسرائیل کى سر زمین شام میں ؟یا طائف میں ؟اس بارے میں اختلاف ہے ،لیکن مشہور یمن ہى ہے _

اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ باغ ایک بوڑھے مر د مومن کى ملکیت تھا ،وہ اپنى ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیا کرتا اور باقى مستضعفین اور حاجت مندوں کو دے دیتا تھا ،لیکن جب اس نے دنیا سے انکھ بند کر لى (اور مر گیا )تو اس کے بیٹوں نے کہا ہم اس باغ کى پیداوار کے زیادہ مستحق ہیں ،چونکہ ہمارے عیال واطفال زیادہ ہیں ،لہذا ہم اپنے باپ کى طرح عمل نہیں کر سکتے ،اس طرح انھوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ ان تمام حاجت مندوں کو جوہر سال اس سے فائدہ اٹھاتے تھے محروم کردیں ،لہذا ان کى سر نوشت وہى ہوئی جو قرآن میں بیان ہوئی _

ارشاد ہوتاہے :''ہم نے انھیں ازمایا ،جب انھوں نے یہ قسم کھائی کہ باغ کے پھلوں کو صبح کے وقت حاجت مندوں کى نظریں بچا کر چنیں گے _''اور اس میں کسى قسم کا استشناء نہ کریں گے اور حاجت مندوں کے لئے کوئی چیز بھى نہ رہنے دیں _''(1)

ان کا یہ ارادہ اس بات کى نشاندہى کرتا ہے کہ یہ کام ضرورت کى بناپر نہیں تھا ،بلکہ یہ ان کے بخل اور ضعیف ایمان کى وجہ سے تھاکیونکہ انسان چاہے کتناہى ضرورت مند کیوں نہ ہو اگر وہ چاہے تو کثیرپیداو ار والے باغ میں سے کچھ نہ کچھ حصہ حاجت مندوں کے لئے مخصوص کرسکتاہے _

اس کے بعد اسى بات کو جارى رکھتے ہوئے مزید کہتا ہے :

''رات کے وقت جب کہ وہ سوئے ہوئے تھے تیرے پروردگار کا ایک گھیرلینے والا عذاب ان کے سارے باغ پر نازل ہوگیا ''(2)

ایک جلانے والى اگ اور مرگ بار بجلى اس طرح سے اس کے اوپر مسلط ہوئی کہ :''وہ سر سبز و شاداب باغ رات کى مانند سیاہ اور تاریک ہوگیا _(3)اور مٹھى بھر راکھ کے سوا کچھ بھى باقى نہ بچا_

بہر حال باغ کے مالکوں نے اس گمان سے کہ یہ پھلوںسے لدے درخت اب تیار ہیں کہ ان کے پھل توڑ لئے جائیں :''صبح ہوتے ہى ایک دوسرے کو پکارا_انھوں نے کہا:''اگر تم باغ کے پھلوں کو توڑنا چاہتے ہو تو اپنے کھیت اور باغ کى طرف چلو_''(4)

''اسى طرح سے وہ اپنے باغ کى طرف چل پڑے اور وہ اہستہ اہستہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے _کہ اس بات کا خیال رکھو کہ ایک بھى فقیر تمہارے پاس نہ انے پائے _''(5) اور وہ اس طرح اہستہ اہستہ باتیں کر رہے تھے کہ ان کى اواز کسى دوسرے کے کانوں تک نہ پہنچ جائے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی فقیر خبردار ہو جائے اور بچے کچے پھل چننے کے لئے یا اپنا پیٹ بھر نے کے لئے تھوڑا سا پھل لینے ان کے پاس اجائے _

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے باپ کے سابقہ نیک اعمال کى بناء پر فقراء کا ایک گروہ ایسے دنوںکے انتظار میں رہتا تھا کہ باغ کے پھل توڑنے کا وقت شروع ہوتو اس میں سے کچھ حصہ انھیں بھى ملے ،اسى لئے یہ بخیل اور ناخلف بیٹے اس طرح سے مخفى طورپر چلے کہ کسى کو یہ احتمال نہ ہو کہ اس قسم کا دن اپہنچا ہے ،اور جب فقراء کو اس کى خبر ہو تو معاملہ ختم ہو چکا ہو _

''اسى طرح سے وہ صبح سویرے اپنے باغ اور کھیت میںجانے کے ارادے سے حاجت مندوں اور فقراء کو روکنے کے لئے پورى قوت اور پختہ ارادے کے ساتھ چل پڑے _''(6)

سرسبز باغ کے مالکوں کا دردناک انجام

وہ باغ والے اس امید پر کہ باغ کى فراواں پیدا وار کو چنیں اور مساکین کى نظریں بچاکر اسے جمع کر لیں اور یہ سب کچھ اپنے لئے خاص کر لیں ،یہاں تک کہ خدا کى نعمت کے اس وسیع دسترخوان پر ایک بھى فقیر نہ بیٹھے ،یوں صبح سویرے چل پڑے لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ رات کے وقت جب کہ وہ پڑے سو رہے تھے ایک مرگبار صاعقہ نے باغ کو ایک مٹھى بھر خاکستر میں تبدیل کر دیا ہے _

قرآن کہتا ہے : ''جب انھوں نے اپنے باغ کو دیکھاتو اس کا حال اس طرح سے بگڑ ا ہوا تھا کہ انھوں نے کہا یہ ہمارا باغ نہیں ہے ،ہم تو راستہ بھول گئے ہیں ،''(7)

پھر انھوں نے مزید کہا :''بلکہ ہم توحقیقت میں محروم ہیں _''(8)

ہم چاہتے تھے کہ مساکین اور ضرور ت مندوںکو محروم کریں لیکن ہم تو خود سب سے زیادہ محروم ہو گئے ہیں مادى منافع سے بھى محروم ہو گئے ہیں اور معنوى برکات سے بھى کہ جو راہ خدا میں خرچ کرنے اور حاجت مندوں کو دینے سے ہمارے ہاتھ اتیں _

''اس اثنا میں ان میں سے ایک جو سب سے زیادہ عقل مند تھا ،اس نے کہا:''کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم خدا کى تسبیح کیوں نہیں کرتے_''(9)

کیا میں نے نہیں کہاتھا کہ خدا کو عظمت کے ساتھ یاد کرو اور اس کى مخالفت سے بچو ،اس کى نعمت کا شکریہ بجالاو اور حاجت مندوں کو اپنے سوال سے بہرہ مند کرو لیکن تم نے میرى بات کو توجہ سے نہ سنا اور بدبختى کے گڑھے میں جاگرے_

یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ ان میں ایک مرد مومن تھا جو انھیں بخل اور حرص سے منع کیا کرتاتھا ،چونکہ وہ اقلیت میں تھا لہذاکوئی بھى اس کى بات پرکان نہیںدھرتا تھا لیکن اس درد ناک حادثہ کے بعد اس کى زبان کھل گئی ،اس کى منطق زیادہ تیز اور زیادہ کاٹ کرنے والى ہو گئی ،اور وہ انھیں مسلسل ملامت اور سر زنش کرتا رہا_

وہ بھى ایک لمحہ کےلئے بیدار ہوگئے اور انھوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر لیا :''انھوں نے کہا :ہمارا پرورددگار پاک اور منزہ ہے ،یقینا ہم ہى ظالم و ستمگر تھے ،(10)ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور دوسروں پر بھى _''

لیکن مطلب یہیں پر ختم نہیں ہوگیا:''انھوں نے ایک دوسرے کى طرف رخ کیا او ر ایک دوسرے کى ملامت و سر زنش کرنے لگے ''_(11)

احتمال یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنى خطا کے اعتراف کے باوجود اصلى گناہ کو دوسرے کے کندھے پر ڈالتا اور شدت کے ساتھ اس کى سرز نش کرتا تھا کہ ہمارى بربادى کا اصل عامل تو ہے ورنہ ہم خدا اور اس کى عدالت سے اس قدر بیگانے نہیں تھے_ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ جب وہ اپنى بدبختى کى انتہاء سے اگاہ ہوئے تو ان کى فریاد بلند ہوئی اور انھوں نے کہا:''وائے ہو ہم پر کہ ہم ہى سرکشى اور طغیان کرنے والے تھے _''(12)

اخر کار انھوں نے اس بیدارى ،گناہ کے اعتراف اور خدا کى بازگشت کے بعد اس کى بارگاہ کى طرف رجوع کیا اور کہا :امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہوں کو بخش دے گا اور ہمیں اس سے بہتر باغ دے گا،کیونکہ ہم نے اس کى طرف رخ کرلیا ہے اور اس کى پاک ذات کے ساتھ لولگالى ہے _لہذا اس مشکل کا حل بھى اسى کى بے پایاں قدرت سے طلب کرتے ہیں _''(13)

کیا یہ گروہ واقعا ً اپنے فعل پر پشیمان ہوگیا تھا ،اس نے پرانے طرز عمل میں تجدید نظر کر لى تھى اور قطعى اور پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ اگر خدا نے ہمیں ائندہ اپنى نعمتوں سے نوازا تو ہم اس کے شکر کا حق ادا کریں گے ؟یا وہ بھى بہت سے ظالموں کى طرح کہ جب وہ عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں تو وقتى طورپر بیدار ہو جاتے ہیں ،لیکن جب عذاب ختم ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ انھیں کاموں کى تکرار کرنے لگتے ہیں _

اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ ایت کے لب و لہجہ سے احتمالى طورپر جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کى توبہ شرائط کے جمع نہ ہونے کى بناء پر قبول نہیں ہوئی ،لیکن بعض روایات میں ایا ہے کہ انھوں نے خلوص نیت کے ساتھ تو بہ کى ،خدا نے ان کى توبہ قبول کر لیا اورا نھیں اس سے بہتر باغ عنایت کیا جس میں خاص طورپر بڑے بڑے خوشوں والے انگور کے پُر میوہ درخت تھے _

قرآن اخر میں کلى طورپر نکالتے ہوئے سب کے لئے ایک درس کے عنوان سے فرماتا ہے :''خدا کا عذاب اس طرح کا ہوتا ہے اور اگر وہ جانیں تو اخرت کا عذاب تو بہت ہى بڑا ہے :''(14)


(1)سورہ قلم ایت 17_18

(2)سورہ قلم ایت 19

(3)سورہ قلم ایت 20

(4)سورہ قلم ایت 21

(5)سورہ قلم ایت 21و22

(6)سورہ قلم ایت 23و24

(7)سورہ قلم ایت 26

(8)سورہ قلم ایت 27

(9)سورہ قلم ایت 28

(10)سورہ قلم ایت 29

(11)سورہ قلم ایت 30

 (12)سورہ قلم ایت 31

(13)سورہ قلم ایت 32

(14)سورہ قلم ایت 33


نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد