اردو زبان

My thinking

اردو زبان

My thinking

روشنی سے تیز سفر کا تجربہ دوبارہ کامیاب اور ایک دلیل

روشنی سے تیز سفر کا تجربہ دوبارہ کامیاب

روشنی سے تیز سفر کا تجربہ دوبارہ کامیاب
یورپی سائنسدانوں نے اس تجربے کو کامیابی سے دوبارہ دہرایا ہے جو بظاہر آئن سٹائن کے اس نظریے کی نفی کرتا ہے جس کے تحت کوئی بھی چیز روشنی سے زیادہ تیزی سے سفر نہیں کر سکتی-

ستمبر میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ ’سرن‘ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے دعوٰی کیا تھا کہ انہوں نے تجربات کے دوران ایسے ’سب اٹامک‘ ذرات کا پتہ چلایا ہے جو روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کرتے ہیں-

اس تجربے کے دوران روشنی کی رفتار کے ساتھ سفر کرنے والے نیوٹرینوز کو سرن لیبیاٹری سے اٹلی میں سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گران ساسو لیبیاٹری بھیجا گیا تھا تاہم نیوٹرینو کی واپسی روشنی کی رفتار سے ایک سیکنڈ قبل ہوئی-

اب انہی سائنسدانوں نے اپنے اس تجربے کو بہتر انداز میں سرانجام دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس دوران ’نیوٹرینو‘ ذرات نے روشنی سے زیادہ تیزی سے سفر کیا-

اس تجربے کو اوپرا کا نام دیا گیا ہے اور اس مرتبہ سائنسدانوں کی ٹیم نے بیس مرتبہ یہ تجربہ دہرایا اور نتیجہ ہر مرتبہ ایک سا رہا-

گزشتہ تجربے کے بعد ناقدین نے اس میں سب اٹامک ذرات کے طویل گچھوں پر اعتراض کیا تھا اور اس مرتبہ تجربے میں چھوٹے گچھے استعمال کیے گئے-

اوپرا ٹیم کے رکن انتونیو اریدیتاتو کا کہنا ہے کہ ’یہ تجربہ سابقہ مشاہدات کی تصدیق کرتا ہے اور اس میں نظام کی ممکنہ غلطیاں بھی دور ہوئی ہیں جو شاید بنیادی طور پر اسے متاثر کر رہی تھیں‘-

ان کے مطابق ’ہمارا خیال تھا کہ ایسا ممکن نہیں لیکن اب ہمارے پاس ثبوت موجود ہے جو اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے‘-

اب اس تجربے کے نتائج کی تصدیق کا عمل شروع ہوگا جس میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور یہ تجربہ کرنے والے سائنسدانوں نے تجزیے کا عمل جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے-

آئن سٹائن کا نظریۂ اضافت جدید طبیعات کا کلیدی اور بنیادی اصول سمجھا جاتا ہے اور سائنس کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق اگر روشنی کی رفتار اگر انتہائی حد نہیں ہے تو پھر تو وقت میں سفر بھی ممکن ہو سکتا ہے. 

http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=187788

دل کے مریضوں کے لیے قدیم چینی ورزش


ریاست میری لینڈ کے علاقے ویٹن میں عمر رسیدہ افراد کے لیے ایک مرکز قائم کیاگیا ہے جہاں جانے افراد قدیم جنگجو وں کے انداز میں روایتی چینی ورزش تائی چی کرتے ہیں- اس ورزش میں مختلف زاویوں سے جسم کو حرکت دی جاتی ہے، کبھی گہری سانس لے کر ایک ٹانگ پر توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے، ان ایک سو سے زیادہ حرکات کا مقصد جسمانی اور ذہنی سکون حاصل کرنا ہے-
تائی چی کم از کم دو ہزار سال پرانی ورزش کی ایک قسم ہے چین میں یہ مارشل آر ٹ کی حیثیت سے پروان چڑھی - روایت ہے کہ چینی بھکشو ں نے یہ ٹیکنیک سانپ اور سارس کے درمیان خونریز رقص کو دیکھ کر اختیار کی تھی -
ماہرین کا کہنا ہے کہ تائی چی دل کے پرانے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے-جس سے ان کی زندگی اور موڈ میں بہتری آتی ہے اور جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حوصلہ ملتا ہے-
ماہرین نے دل کے ایک سو مریضوں پر تحقیق کے دوران ان میں سے 50 کو تین ماہ کے لیے ہفتے میں دو مرتبہ تائی چی کرنے کو کہا گیا جبکہ دیگر 50 مریضوں نے دل کی صحت سے متعلق معلومات کے لیے ایک کلاس میں شرکت کی -
ہارو я میڈیکل سکول کی ڈاکٹر گلوریا یی اور ڈیکونس میڈیکل سنٹر کی بیتھ ازرائیل اس مطالعے کی شریک مصنف ہیں-
ڈاکٹر گلوریا کا کہنا ہے کہ:

دماغ اور جسم کے درمیان تعلق جدید سائنسی مطالعے کا اہم موضوع بنتا جا رہا ہے - ماہرین نے اب یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قدیم چینی ورزش جو دماغ اور جسم کے درمیان توازن پر مبنی ہے دل کے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہو رہی ہے-
دل کی بیماری بتدریج بڑھتی ہے - اس کی وجہ سے مریض اکثر ورزش کے دوران تھکاوٹ ، سانس پھولنے اور عام جسمانی صحت میں کمی واقع ہونے کی شکایت کرتے ہیں- اگر ہم ایسا کر سکیں کہ مریض اچھا محسوس کرے اور ان کی زندگی بہتر ہو جائے تو یہ ایک اہم پیش رفت ہے-

اس مخصوص کلاس کے ادھیڑ عمر طالب علموں نے مطالعے میں حصہ نہیں لیا لیکن وہ اس بات سے متفق ہیں کہ تائی چی سے وہ بہترمحسوس کرتے ہیں-
اس مطالعے سے پتا چلا ہے کہ تائی چی پروگرام میں شامل افراد میں اضافی جسمانی سرگرمی میں حصہ لینے کی وجہ سے بہت زیادہ حراروں کا استعمال ہوا- گذشتہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ تائی چی سے دیگر بیماریوں کے اثرات بھی کم کرنے میں مدد ملتی ہے مثال کے طور پر بلڈ پریشر اور ذہنی۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ایک قول

قائد انقلاب اسلامی نے 6 دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اکیس محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مومنین کے درمیان کیسی اپنائیت اور خلوص کا رشتہ ہونا چاہئے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
"قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع أَ یَجِی‏ءُ أَحَدُکُمْ إِلَى أَخِیهِ فَیُدْخِلُ یَدَهُ فِی کِیسِهِ فَیَأْخُذُ حَاجَتَهُ فَلَا یَدْفَعُهُ فَقُلْتُ مَا أَعْرِفُ ذَلِکَ فِینَا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَلَا شَیْ‏ءَ إِذاً قُلْتُ فَالْهَلَاکُ إِذاً فَقَالَ إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ یُعْطَوْا أَحْلَامَهُمْ بَعْد"

کافى، ج 2، ص 174
ترجمہ و تشریح:
کتاب الکافی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی یہ روایت منقول ہے کہ «أ یجء احدکم الى اخیه فیدخل یده فى کیسه فیأخذ حاجته فلا یدفعه» حضرت نے اپنے اصحاب میں سے ایک سے سوال کیا، اب اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ وہ صحابی کون تھے، انہوں نے کیا سوال کیا تھا اور وہ کہاں کے رہنے والے تھے؟ اس تمہید کا ذکر اس روایت میں نہیں ہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ آپ جس جگہ رہتے ہیں کیا وہاں ایسا ماحول ہے کہ آپ میں سے کوئی آئے اور اپنے برادر دینی کی جیب میں ہاتھ ڈالے اور اپنی ضرورت کے مطابق پیسہ نکال لے اور اس برادر دینی کو ناگوار بھی نہ گزرے؟ کیا آپ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ آپ کی جیبیں ایک دوسرے کے لئے کھلی ہوئی ہوں۔
مرحوم حرز الدین نے نقل کیا ہے کہ معروف اور جلیل القدرعالم دین کاشف الغطاء مرحوم کے زمانے میں شیخ خضر نام کے بڑے اہم عالم دین گزرے ہیں۔ عید کے دن نجف اشرف کے عوام اور اطراف کے قبائل شیخ خضر کے گھر جاتے تھے اور تحفے کے طور پر سامان اور رقم دیتے تھے۔ عید کا دن تھا اور لوگوں نے ان کے سامنے جو چیزیں لاکر رکھی تھیں ان کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اسی عالم میں شیخ جعفرکاشف الغطاء وہاں پہنچے۔ انہوں نے سامان اور رقم دیکھی۔ ظہر کا وقت آ گیا اور ملنے والے لوگ رفتہ رفتہ لوٹ گئے۔ کاشف الغطاء اٹھے اور اپنی ابا میں اس رقم اور سونا چاندی کو جمع کیا اور خدا حافظ کرکے روانہ ہو گئے۔ شیخ خضر نے بس ایک نظرڈالی اور کچھ بھی نہیں بولے گویا کوئی خاص بات ہوئی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ بہرحال امام نے سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کے درمیان ذاتی چیزوں کے استعمال کے سلسلے میں یہ عالم ہے۔ مثلا آپ نے اپنی قبا کہیں آویزاں کر رکھی ہے۔ آپ کا دوست آتا ہے اور آپ کی قبا کی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے، ضرورت کے مطابق رقم نکالتا ہے اور باقی رقم جیب میں چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے اور آپ کو ذرہ برابر بھی ناگوار نہیں گزرتا؟ کیا تمہارے درمیان اس طرح کے تعلقات ہیں؟ اس راوی نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان ایسا ماحول نہیں ہے۔ امام نے فرمایا کہ پھر تو ابھی کچھ ہوا ہی نہیں۔*
میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں شیعہ معاشرہ رفتہ رفتہ تشکیل پا رہا تھا۔ واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کے تینتیس چوتیس سال کے دور میں عوام الناس رفتہ رفتہ جمع ہو رہے تھے۔ کیونکہ عاشور کے واقعے کے بعد شیعوں کے خلاف جو سختیاں اور زیادتیاں شروع ہوئیں ان سے شیعہ بکھر کر رہ گئے تھے، گوشہ و کنار میں چلے گئے تھے۔ ان چونتیس برسوں میں لوگ دوبارہ رفتہ رفتہ جمع ہوئے۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں لوگ زیادہ جمع ہوئے۔ شہروں اور قرب و جوار کے علاقوں میں لوگ پھر سے جمع ہوئے۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے اور امام فرما رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں شیعہ مراکز کو اس انداز سے قائم کیا جائے۔ ان کے درمیان آپس میں اس طرح میل محبت ہو۔
حضرت نے جو فرمایا کہ " فلا شئ" تب تو ابھی کوچھ ہوا ہی نہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ جو مطمح نظر ہے وہ ابھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ وہ شخص یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ " فالھلاک اذا؟" ہلاک لفظ کے الگ الگ جگہوں پر مختلف معانی ہوتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد ہے بد بختی۔ یعنی تو کیا ہم بد بخت ہیں؟ امام نے جواب دیا " ان القوم لم یعطوا احلامھم بعد" احلام جمع ہے حلم کی۔ اس کا مطلب ہے حلم و بردباری۔ قرآن میں بھی "حلم یحلم" کا لفظ استعمال ہوا ہے خواب کے معنی میں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ روایت میں امام نے یہ فرمایا کہ ہے پھر بردباری اور رواداری کی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکے ہو۔ لہذا یہاں ہلاک کا مطلب نابودی نہیں ہے اور عذاب خدا میں گرفتار ہونا نہیں ہے۔ یہاں یہ مراد ہے کہ ابھی تمہارے اندر مطلوبہ شرح صدر پیدا نہیں ہوا ہے۔

خدا کی تعریف


تو سب کا مالک
بے آسرا ہم
بندوں پہ شفقت
لیتے ہیں ہر دم
تو نے بنائی
یہ خوب صورت
حیوان انساں
شہر اور بیاباں
روشن کئے ہیں
یہ ننھے ننھے
باغوں میں تو نے
پھول اور پھل سب
تو نے سمجھ کو
لکھنا سکھایا
ہے عام سب پر
اختر کو یا رب
سب کا خدا تو!
اور آسرا تو!
ہے کام تیرا!
ہم نام تیرا!
یہ ساری دنیا!
یہ پیاری دنیا!
تو نے بنائے!
تو نے بسائے!
تو نے یہ تارے!
یہ پیارے پیارے!
پودے اگائے!
تو نے بنائے!
بڑھنا سکھایا!
پڑھنا سکھایا!
احسان تیرا!
ہے دھیان تیرا!تحریر: اختر شیرانی

شہید علی جواد احمد الشیخ کا جلوس جنازہ اور تدفین

بحرین - تصویر: شہید علی جواد احمد الشیخ کا جلوس جنازہ اور تدفین