سلام هو آپ پر
اے
عاشق خدا
عرفات کے میدان سے
کربلا کے میدان تک
هر لمحه آپ
بارگاه خدا مین
یون حاضر تهے
گویا
الله کو اپنی
سامنے دیکه رهے هون
آج محرم کی دو هے
مین سوچ رهی هون
آج
11 معصومون کی مان
کا دل
غمون سے ٹوٹ رها هوگا
اوپر سے
کل جو پاکستان مین هوا
اس کا کیا اثر هوکا؟
الله دل نازنین
طیبه
سیده
طاهره
ذکیه
محدثه
زهرا
"فاطمه سلام الله علیها"
کو اپنی
حفظ و امان مین رکهے
آمین
مولا
آقا
آپ کو مبارک هو عید سعید غدیر اور مباهله.
آپ کو الله نے طهارت کی سند دی.
آپ نے کام بهی تو ایسے کے که الله نی یه مهر لگائی که آپ کی زندگی حجت هے.
مین حیران هون اور اکثر سوچتی هون
که
صبر
عشق
اطاعت
کی اصل تصویر جو آپنی بنائی هی
جن مین رنگ آپنی بهرا هی وه ناقابل محو هے
مگر مین نے جو اپنی تصویر بنانا هے وه کیسی بنائون؟
میرے قدم لرز رهے هین
گناهون سے
اشتباه فکری سے
کیا کرون
آئین
میری مدد کرین
کم سے کم
گناهون پر صبر مین میری مدد کرین
عشق کی الف,ب پرها دین
یا
اطاعت کرنی مین میری مدد کرین
مین اکیلی کچه نهین کرسکتی هون.
History of Hazrat e Masooma e Qum as
Apka name Fatimah hay or mashhor tareen laqab "Masoomah"hy.Walid imam e Haftum sheyan Hazrat ImamMosa Kazim as or
walda Hazrat Najma khatoon hain.Hazrat imam Raza as or hazrat Masooma Qum ki aik hi walida hian.
apki wiladat first Zeqada 173 hijri qmri ko Madina me hoi or aj ky din ko shia Rooze dukhtaran(Larkio ka din )kehty hain.
phr walid ki shahdat ki wajha sy ap ki trbyat ki zmydariapky bhai Hazrat Imam Raza as ky zimy hoi.
200 hijri qamri me Mamoon ky israr or griftari ki wajha sy imam Raza as Maroo tashrif lay to apky sath koi rishty dar
or nahi koi ghr ka frd sath tha is tanhai ky alam me ap KHurasan tashrif lay.
Aik sal bad Hazrat Masooma Qum as apny bhai ky didar ky shoq or krdar e Zanabi koo anjam deny ky ly pyam e wilayat phelany ky ly kuch bhaio
or kuch bhatijoo ky sath azim e kHurasan hoin or apka hr shehr me istaqbal hoaapny apny bhai ki mazloomyat or bani abas ky heloo
or syasat ka brmala izhar kia yaha tk ky qafla Sawah ky muqam pr pohncha waha pr hokomt ky afrad phly sy mojod thy sary rah Qaflay or hokomt ky afrad ky drmyan jang hoi is Jang me tamam mrd shaheed ho gay riwayat me mlta hy ky isi jang me Hazrat Masoooma Qum as ko bhi zehr dy dia gaya.
Hazrat Masooma Qum as zehr ky asar,musafrat,bhai ki jodai or mushkil halat ki wajha sy bymar ho gain kunky ap khurasan nahi ja sktin thin lihaza Qum ka apny irada kia or pocha
Qum or sawa ky drmyan kitna fasla hy?
phr apny frmaya mujhy"Qum ly jao.kun ky meny apny Walid sy suna hy "sher Qum hamary shio ka mrkaz hay".
23 Rabiul Awal sal201hijri qamri me ap Qum me tashrif lain "Mosa bn khazraj" ko jo ky buzrgwar e qabila "ashri" sy thy ko Mazbani ka sharf mila.
17 din apny qum me qyam kia Ebadat wa dua me masrof rahin.
10 Rabiul sani or mashhoor qol ki bina pr 12 Rabiul sani sal201 hijri me aalam e ghurbat(mufair ko gharib kehty hain na ky faqir) me apki shahadat hoi.
بر صیصائے عابد بنى اسرائیل میں ایک نامى گرامى عابد تھاجس کا نام ''بر صیصا'' تھا(1)
برصیصا نے طویل عرصے تک پروردگار کی عبادت کى تھى جس کى وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ جان بلب مریضوں کو اس کے پاس لایاجاتا تو اس کى دعا سے تندرست ہو جاتے ۔
ایک دفعہ ایک معقول گھرانے کى عورت کو اس کے بھائی اس کے پا س لائے اور طے پایا کہ کچھ عرصہ تک وہ عورت وہیں رہے تاکہ اس کو شفا حاصل ہو_
اب شیطا ن نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی ٹھانی اور اسے اپنے دام میں اسیر کیا حتی کہ اس نے اس عورت کے سا تھ زیادتى کى اور اب شیطان عابد کی پاس آیا اور کها که اب کیا کروگے اب تو اس کی بهائی آئیں گے اور تجهے زنده نه چهوڑیں گے
عابد نے گڑگڑا کر کها: تو اب تم بتاؤ میں کیا کروں؟
شیطان نے کها: سیدہی سی بات ہے۔ اس عورت کو قتل کرو اور اپنے بستر کی نیچے زمین کھودلو اور اسے دفن کرو.
عابد نے ایسا ہی کیا اور شیطان اس عورت کی بهائیون کے پاس پهنچا اور انهیں ماجرا کهہ سنایا۔ وه نہ مانے تو شیطان نے کها: میری ہمراه آؤ میں تمهیں اس کا مدفن دکهاتا ہوں. چنانچه وه شیطان کے ہمراه عابد کے اڈے پر پہنچے اور زمین کود کر لاش نکال ڈالی . یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی اور امیر شہر کے کانوں تک بھی جا پہنچى.
امیر حقیقت حال جاننے کی غرض سے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر چلا۔ پوچھ گچھ کے پعد اس کا جرم ثابت ہؤا تو اس کو اس کى عبادت گاہ سے کھینچ کر باہر لایا گیا۔ اور اقرار گناہ کے بعد اسے سولى پر چڑھائے جانے کا حکم سنایا گیا۔
برصیصا جس وقت وہ سولى پر چڑھایا جانے لگا تو شیطان سامنے نمودار ہؤا اور کہا: میں نے تجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے،اب اگر جو کچھ میں کہوں وہ مان لے تو میں تیرى نجات کا سامان فراہم کر تا ہوں۔
عابد نے کہا میں کیا کروں ،اس نے کہا میرے لئے تیرا صرف ایک سجدہ کافى ہے۔
عابد نے کہا: جس حالت میں تو مجھے دیکھ رہا ہے اس میں سجدہ کر نے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
شیطان نے کہا: اشارہ ہى کافى ہے۔
عابد نے گوشہ چشم یا ہاتھ سے اشارہ کیا اور اس طرح وه شیطان کے سامنے سجدہ بجا لایا اور اسى وقت سولی پر چڑہایا گیا اور مرگیا.
یون تزکیه نفس نه کرنے والا عابد اس دنیا سے کافر ہوکر رخصت ہؤا.
(1)اس واقعہ کو بعض مفسرین نے سورہ حشر کی آیات 16 اور 17، کے ذیل میں بیان کیا ہے۔
اصحاب الجنہ
سر سبز باغات کے مالک
قرآن میں پہلے زمانہ کے کچھ دولتمندوں کے بارے میں جو ایک سر سبز و شاداب باغ کے مالک تھے اور اخر کار وہ خود سرى کى بناء پر نابود ہوگئے تھے،ایک داستان بیان کرتا ہے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ داستان اس زمانہ لوگوں میں مشہور و معروف تھی،اور اسى بناء پر اس کو گواہى کے طورپر پیش کیا گیا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:
''ہم نے انھیں ازمایا ،جیساکہ ہم نے باغ والوں کى ازمائشے کى تھى _''
یہ باغ کہاں تھا ،عظیم شہر صنعا ء کے قریب سر زمین یمن میں ؟یا سر زمین حبشہ میں ؟یا بنى اسرائیل کى سر زمین شام میں ؟یا طائف میں ؟اس بارے میں اختلاف ہے ،لیکن مشہور یمن ہى ہے _
اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ باغ ایک بوڑھے مر د مومن کى ملکیت تھا ،وہ اپنى ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیا کرتا اور باقى مستضعفین اور حاجت مندوں کو دے دیتا تھا ،لیکن جب اس نے دنیا سے انکھ بند کر لى (اور مر گیا )تو اس کے بیٹوں نے کہا ہم اس باغ کى پیداوار کے زیادہ مستحق ہیں ،چونکہ ہمارے عیال واطفال زیادہ ہیں ،لہذا ہم اپنے باپ کى طرح عمل نہیں کر سکتے ،اس طرح انھوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ ان تمام حاجت مندوں کو جوہر سال اس سے فائدہ اٹھاتے تھے محروم کردیں ،لہذا ان کى سر نوشت وہى ہوئی جو قرآن میں بیان ہوئی _
ارشاد ہوتاہے :''ہم نے انھیں ازمایا ،جب انھوں نے یہ قسم کھائی کہ باغ کے پھلوں کو صبح کے وقت حاجت مندوں کى نظریں بچا کر چنیں گے _''اور اس میں کسى قسم کا استشناء نہ کریں گے اور حاجت مندوں کے لئے کوئی چیز بھى نہ رہنے دیں _''(1)
ان کا یہ ارادہ اس بات کى نشاندہى کرتا ہے کہ یہ کام ضرورت کى بناپر نہیں تھا ،بلکہ یہ ان کے بخل اور ضعیف ایمان کى وجہ سے تھاکیونکہ انسان چاہے کتناہى ضرورت مند کیوں نہ ہو اگر وہ چاہے تو کثیرپیداو ار والے باغ میں سے کچھ نہ کچھ حصہ حاجت مندوں کے لئے مخصوص کرسکتاہے _
اس کے بعد اسى بات کو جارى رکھتے ہوئے مزید کہتا ہے :
''رات کے وقت جب کہ وہ سوئے ہوئے تھے تیرے پروردگار کا ایک گھیرلینے والا عذاب ان کے سارے باغ پر نازل ہوگیا ''(2)
ایک جلانے والى اگ اور مرگ بار بجلى اس طرح سے اس کے اوپر مسلط ہوئی کہ :''وہ سر سبز و شاداب باغ رات کى مانند سیاہ اور تاریک ہوگیا _(3)اور مٹھى بھر راکھ کے سوا کچھ بھى باقى نہ بچا_
بہر حال باغ کے مالکوں نے اس گمان سے کہ یہ پھلوںسے لدے درخت اب تیار ہیں کہ ان کے پھل توڑ لئے جائیں :''صبح ہوتے ہى ایک دوسرے کو پکارا_انھوں نے کہا:''اگر تم باغ کے پھلوں کو توڑنا چاہتے ہو تو اپنے کھیت اور باغ کى طرف چلو_''(4)
''اسى طرح سے وہ اپنے باغ کى طرف چل پڑے اور وہ اہستہ اہستہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے _کہ اس بات کا خیال رکھو کہ ایک بھى فقیر تمہارے پاس نہ انے پائے _''(5) اور وہ اس طرح اہستہ اہستہ باتیں کر رہے تھے کہ ان کى اواز کسى دوسرے کے کانوں تک نہ پہنچ جائے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی فقیر خبردار ہو جائے اور بچے کچے پھل چننے کے لئے یا اپنا پیٹ بھر نے کے لئے تھوڑا سا پھل لینے ان کے پاس اجائے _
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے باپ کے سابقہ نیک اعمال کى بناء پر فقراء کا ایک گروہ ایسے دنوںکے انتظار میں رہتا تھا کہ باغ کے پھل توڑنے کا وقت شروع ہوتو اس میں سے کچھ حصہ انھیں بھى ملے ،اسى لئے یہ بخیل اور ناخلف بیٹے اس طرح سے مخفى طورپر چلے کہ کسى کو یہ احتمال نہ ہو کہ اس قسم کا دن اپہنچا ہے ،اور جب فقراء کو اس کى خبر ہو تو معاملہ ختم ہو چکا ہو _
''اسى طرح سے وہ صبح سویرے اپنے باغ اور کھیت میںجانے کے ارادے سے حاجت مندوں اور فقراء کو روکنے کے لئے پورى قوت اور پختہ ارادے کے ساتھ چل پڑے _''(6)
وہ باغ والے اس امید پر کہ باغ کى فراواں پیدا وار کو چنیں اور مساکین کى نظریں بچاکر اسے جمع کر لیں اور یہ سب کچھ اپنے لئے خاص کر لیں ،یہاں تک کہ خدا کى نعمت کے اس وسیع دسترخوان پر ایک بھى فقیر نہ بیٹھے ،یوں صبح سویرے چل پڑے لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ رات کے وقت جب کہ وہ پڑے سو رہے تھے ایک مرگبار صاعقہ نے باغ کو ایک مٹھى بھر خاکستر میں تبدیل کر دیا ہے _
قرآن کہتا ہے : ''جب انھوں نے اپنے باغ کو دیکھاتو اس کا حال اس طرح سے بگڑ ا ہوا تھا کہ انھوں نے کہا یہ ہمارا باغ نہیں ہے ،ہم تو راستہ بھول گئے ہیں ،''(7)
پھر انھوں نے مزید کہا :''بلکہ ہم توحقیقت میں محروم ہیں _''(8)
ہم چاہتے تھے کہ مساکین اور ضرور ت مندوںکو محروم کریں لیکن ہم تو خود سب سے زیادہ محروم ہو گئے ہیں مادى منافع سے بھى محروم ہو گئے ہیں اور معنوى برکات سے بھى کہ جو راہ خدا میں خرچ کرنے اور حاجت مندوں کو دینے سے ہمارے ہاتھ اتیں _
''اس اثنا میں ان میں سے ایک جو سب سے زیادہ عقل مند تھا ،اس نے کہا:''کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم خدا کى تسبیح کیوں نہیں کرتے_''(9)
کیا میں نے نہیں کہاتھا کہ خدا کو عظمت کے ساتھ یاد کرو اور اس کى مخالفت سے بچو ،اس کى نعمت کا شکریہ بجالاو اور حاجت مندوں کو اپنے سوال سے بہرہ مند کرو لیکن تم نے میرى بات کو توجہ سے نہ سنا اور بدبختى کے گڑھے میں جاگرے_
یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ ان میں ایک مرد مومن تھا جو انھیں بخل اور حرص سے منع کیا کرتاتھا ،چونکہ وہ اقلیت میں تھا لہذاکوئی بھى اس کى بات پرکان نہیںدھرتا تھا لیکن اس درد ناک حادثہ کے بعد اس کى زبان کھل گئی ،اس کى منطق زیادہ تیز اور زیادہ کاٹ کرنے والى ہو گئی ،اور وہ انھیں مسلسل ملامت اور سر زنش کرتا رہا_
وہ بھى ایک لمحہ کےلئے بیدار ہوگئے اور انھوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر لیا :''انھوں نے کہا :ہمارا پرورددگار پاک اور منزہ ہے ،یقینا ہم ہى ظالم و ستمگر تھے ،(10)ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور دوسروں پر بھى _''
لیکن مطلب یہیں پر ختم نہیں ہوگیا:''انھوں نے ایک دوسرے کى طرف رخ کیا او ر ایک دوسرے کى ملامت و سر زنش کرنے لگے ''_(11)
احتمال یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنى خطا کے اعتراف کے باوجود اصلى گناہ کو دوسرے کے کندھے پر ڈالتا اور شدت کے ساتھ اس کى سرز نش کرتا تھا کہ ہمارى بربادى کا اصل عامل تو ہے ورنہ ہم خدا اور اس کى عدالت سے اس قدر بیگانے نہیں تھے_ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ جب وہ اپنى بدبختى کى انتہاء سے اگاہ ہوئے تو ان کى فریاد بلند ہوئی اور انھوں نے کہا:''وائے ہو ہم پر کہ ہم ہى سرکشى اور طغیان کرنے والے تھے _''(12)
اخر کار انھوں نے اس بیدارى ،گناہ کے اعتراف اور خدا کى بازگشت کے بعد اس کى بارگاہ کى طرف رجوع کیا اور کہا :امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہوں کو بخش دے گا اور ہمیں اس سے بہتر باغ دے گا،کیونکہ ہم نے اس کى طرف رخ کرلیا ہے اور اس کى پاک ذات کے ساتھ لولگالى ہے _لہذا اس مشکل کا حل بھى اسى کى بے پایاں قدرت سے طلب کرتے ہیں _''(13)
کیا یہ گروہ واقعا ً اپنے فعل پر پشیمان ہوگیا تھا ،اس نے پرانے طرز عمل میں تجدید نظر کر لى تھى اور قطعى اور پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ اگر خدا نے ہمیں ائندہ اپنى نعمتوں سے نوازا تو ہم اس کے شکر کا حق ادا کریں گے ؟یا وہ بھى بہت سے ظالموں کى طرح کہ جب وہ عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں تو وقتى طورپر بیدار ہو جاتے ہیں ،لیکن جب عذاب ختم ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ انھیں کاموں کى تکرار کرنے لگتے ہیں _
اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ ایت کے لب و لہجہ سے احتمالى طورپر جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کى توبہ شرائط کے جمع نہ ہونے کى بناء پر قبول نہیں ہوئی ،لیکن بعض روایات میں ایا ہے کہ انھوں نے خلوص نیت کے ساتھ تو بہ کى ،خدا نے ان کى توبہ قبول کر لیا اورا نھیں اس سے بہتر باغ عنایت کیا جس میں خاص طورپر بڑے بڑے خوشوں والے انگور کے پُر میوہ درخت تھے _
قرآن اخر میں کلى طورپر نکالتے ہوئے سب کے لئے ایک درس کے عنوان سے فرماتا ہے :''خدا کا عذاب اس طرح کا ہوتا ہے اور اگر وہ جانیں تو اخرت کا عذاب تو بہت ہى بڑا ہے :''(14)
(1)سورہ قلم ایت 17_18
(2)سورہ قلم ایت 19
(3)سورہ قلم ایت 20
(4)سورہ قلم ایت 21
(5)سورہ قلم ایت 21و22
(6)سورہ قلم ایت 23و24
(7)سورہ قلم ایت 26
(8)سورہ قلم ایت 27
(9)سورہ قلم ایت 28
(10)سورہ قلم ایت 29
(11)سورہ قلم ایت 30
(12)سورہ قلم ایت 31
(13)سورہ قلم ایت 32
(14)سورہ قلم ایت 33